افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کا عمل شروع ہونے کے بعد طالبان نے جمعے کو کسی مزاحمت کے بغیر ملک کے جنوب میں ضلعے پر قبضہ کر لیا ہے۔
بین الاقوامی فورسز کے ایک ماہ قبل شروع ہونے والے انخلا کے بعد افغان صوبے زابل کا ’ضلع شینکے‘ ساتواں ضلع ہے جہاں طالبان قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
افغانستان کے جنوبی ضلع زابل کے ایک سیکیورٹی افسر نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان جنگجو جمعے کو صبح افغان سیکیورٹی فورسز کے پیچھے ہٹا کر قریبی آرمی بیس میں منتقل ہونے کے بعد ضلع میں داخل ہوئے۔
تاہم صوبائی پولیس چیف جنرل کی طرف سے افغان سیکیورٹی فورسز کے پیچھے ہٹنے کی تصدیق نہیں کی گئی۔ جب کہ ان کے مطابق افغان سیکیورٹی فورسز ابھی بھی ضلع میں موجود ہیں اور جنگ جاری ہے۔
دوسری طرف طالبان کے ترجمان یوسف احمد نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ طالبان نے سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔
تاہم انہوں نے حراست میں لیے گئے سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد نہیں بتائی گئی اور نہ ہی آزاد ذرائع سے اس دعوے کی تصدیق ہوئی ہے۔
طالبان کے حامی سوشل میڈیا گروپس میں ضلع شینکے کی تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں جن میں طالبان جنگجو سڑکوں پر گشت کرتے نظر آ رہے ہیں۔جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب دارالحکومت کابل میں بھی سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے خاتون صحافی ٹی وی اینکر مینا خیری اور ان کی والدہ ہلاک ہوئے۔ جب کہ ان کی بہن دھماکے میں زخمی ہوئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مینا خیری 'آریانا نیوز چینل' کے لیے گزشتہ تین برس سے کام کر رہی تھیں۔
افغانستان میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے قائم کمیٹی ‘اے جے ایس سی’ کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز کابل میں ہلاک ہونے والی مینا خیری اور ان کی والدہ کی ہلاکت پر انہیں انتہائی افسوس ہے۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کی شدید مذمت کرتی ہے اور حکومت سے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے۔
آریانا نیوز کے سربراہ کا ایک ویڈیو پیغام میں کہنا ہے کہ ان کا ادارہ مینا خیری کی ہلاکت پر انتہائی غم زدہ ہیں۔ تاہم ان کے بقول آریانا نیوز صحافت کی آزادی سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور وہ افغانستان میں صحافت کی آزادی کے لیے کوشاں رہیں گے۔
افغانستان کے نائب صدر سرور دانش کا جمعے کو کہنا تھا کہ وہ سیکیورٹی اور حکومتی ادارے جو براہِ راست سیکیورٹی فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں انہیں کابل کے مغرب میں ہونے والے متواتر حملوں پر جواب دہ بنانا چاہیے۔
خیال رہے کہ جمعرات کی رات ہونے والے بم دھماکے میں چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
دھماکے کی ذمہ داری کسی تنظیم کی طرف سے قبول نہیں کی گئی۔
افغانستان کے دیگر علاقوں میں بھی سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں جس سے ان خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد ملک میں انتشار اور تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے رواں سال اپریل میں افغانستان میں موجود 2500 امریکی فوجی اہلکاروں اور لگ بھگ 7000 نیٹو فورسز کے 11 ستمبر 2021 تک انخلا کا اعلان کیا تھا۔
امریکی صدر کا یہ فیصلہ گزشتہ برس فروری میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے مطابق فوجی انخلا کی طے کردہ تاریخ سے مختلف تھا۔ جو افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے کیا گیا تھا۔
رواں ہفتے امریکی فوج کا کہنا تھا کہ یکم مئی سے شروع ہونے والے انخلا کے بعد اس کے لگ بھگ نصف فوجی اور جنگی ساز و سامان یا تو واپس بھیجا جا چکا ہے یا اس کو تلف کر دیا گیا ہے۔
جمعے کو اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ طالبان جو کچھ مذاکرات کے ذریعے حاصل کرنے میں ناکام رہے وہ اب طاقت کے ذریعے حاصل کر رہے ہیں۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے جمعے کو ہونے والے حملوں کے بعد افغان فریقین پر مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے پر زور دیا تھا۔
انٹنی بلنکن کا کہنا تھا کہ وہ طالبان اور افغان رہنماؤں سے افغانستان میں مستقل امن کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تاکہ مہاجرین اپنے گھروں کو محفوظ طریقے سے واپس جا سکیں۔