|
افغانستان کے ڈی فیکٹو طالبان رہنماؤں نے اقوام متحدہ کے مقرر کردہ انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کو مبینہ طور پر "پروپیگنڈا پھیلانے" کے الزام میں ملک میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو دیر گئے افغان نشریاتی ادارے ’طلوع نیوز‘ کو اس فیصلےکے بارے میں بتاتے ہوئےاقوام متحدہ کے ایلچی پر ملک کے "زمینی حقائق" کو غلط طریقے سے پیش کرنے اور عالمی برادری کو "گمراہ کن" معلومات فراہم کرنے الزام عائد کیا۔
جنیوا میں قائم ہیومن رائٹس کونسل کے نمائندے بینیٹ نے بنیاد پسند طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے ایک سال بعد، 2022 میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔جس کے بعد سے انہوں نے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کی تحقیقات کے لیے کابل کے کئی دورے کیے ہیں-
مجاہد نے کہا،" مسٹر بینیٹ کے افغانستان کے سفر پر اس لیے پابندی عائد کی گئی کیونکہ انہیں افغانستان میں پروپیگنڈہ پھیلانے کا کام سونپا گیا تھا۔ وہ ایسے نہیں ہیں جن پر ہم بھروسہ کریں... وہ چھوٹے چھوٹے مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے۔‘‘
اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل اور بینیٹ نے عائد کی جانے والی سفری پابندی پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہں کیا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نمائندے نے حال ہی میں شائع ہونے والے اپنے جائزوں میں سے ایک میں، افغان خواتین کی تعلیم، روزگار اور عوامی زندگی تک رسائی پر طالبان کی طرف سے وسیع پابندیوں کو اجاگر کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں فوری طور پر واپس لیا جائے۔
بینیٹ نے الزام عائد کیا تھاکہ طالبان کے دور حکومت میں خواتین اور لڑکیوں کو "صنف کی بنیاد پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جسے انہوں نے انسانیت کے منافی جرم سے تعبیر کیا تھا۔۔
انہوں نے اس پر زور دیا تھا کہ اس رویے کی ادارہ جاتی، منظم اور وسیع نوعیت اسے "صنفی تعصب" قرار دیے جانےکا جواز پیش کرتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مجاہد نے اقوام متحدہ کی تحقیقات کے نتائج اور اس بارے بینیٹ کے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں پروپیگنڈہ قرار دیا۔ انہوں نےکہا کہ طالبان اسلامی قانون اور افغان رسم و رواج کی اپنی تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔”
خبر رساں ایجنسی فرانس پریس کے مطابق ایک سفارتی ذریعے نے اقوام متحدہ کے نمائندے پر پابندی کی تصدیق کی ہے۔ اور کہا ہےکہ "بینیٹ کو کئی ماہ قبل "اس فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ افغانستان واپس آنے پر انہیں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔"
طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہاربلخی نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایاکہ،"مسٹر بینیٹ سے کام کے دوران پیشہ ورانہ رویے پر عمل کرنے کی بار بار درخواستوں کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کی رپورٹس متعصبانہ اور افغاستان اور افغان عوام کے مفادات کے لیے ضرر رساں (من گھڑت)کہانیوں پر مبنی ہیں۔"
SEE ALSO: افغانستان: سرکاری شعبے میں خواتین کی تنخواہوں میں کٹوتیطالبان حکام وی او اے کے سوالات کا جواب نہیں دیتے کیونکہ انہوں نے اس میڈیا آؤٹ لیٹ پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
ڈی فیکٹو بنیاد پرست افغان حکام نے 12 سال اور اس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو اسکول جانے اور خواتین کو اقوام متحدہ سمیت سرکاری اور نجی شعبے میں متعدد کام کی جگہوں پر جانے سے روک دیا ہے، اس کے علاوہ خواتین کو کسی مرد سرپرست کے بغیر 78 کلومیٹر سے زیادہ لمبا سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے، اور انکے پارکوں، جم اور عوامی حماموں میں جانے پر پابندی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیدربار نے وی او اے کو بتایا، "طالبان کی جانب سے بینیٹ کو ملک میں داخلے کی اجازت نہ دیناایسی بہت سی نشانیوں میں سے ایک ہے کہ ان کا انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور یہ شدید ہوتا جا رہا ہے۔"
انہوں نے ای میل کے ذریعے شیئر کیے گئے اپنے تبصروں میں کہا، "عالمی برادری اور اقوام متحدہ کو طالبان کی اس اشتعال انگیزی کا جواب دینا چاہیے کہ وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ایجنڈے اور میز پر خواتین کے بغیر کبھی بات نہیں کریں گے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان نے گزشتہ ماہ دوحہ میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والے اجلاس میں پہلی بار شرکت کی تھی، جہاں انہوں نے دو درجن سے زیادہ ممالک کے سفیروں سے افغانستان کے اقتصادی اور انسانی چیلنجوں سے متعلق امور پر بات چیت کی۔ اقوام متحدہ نے طالبان کی مخالفت کا حوالہ دیتے ہوئے افغان خواتین یا انسانی حقوق کے نمائندوں کو مدعو نہیں کیا، تاہم، اس اقدام پر عالمی ادارے پر سخت تنقید کی گئی تھی۔
2021 میں افغانستان پر قبضے کے بعد سے کسی بھی ملک نے طالبان کو باضابطہ طور پر قانونی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ناروا سلوک کے حوالہ سے۔
SEE ALSO: داڑھی کیوں نہیں رکھی؟ طالبان نے 280 سیکیورٹی اہل کار برطرف کر دیےطالبان کے کئی سرکردہ رہنمادہشت گردی کے حوالے سے عائد بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں ہیں، اور افغان بینکنگ سیکٹر بڑی حد تک باقی دنیا سے الگ تھلگ ہے، امریکہ اور یورپی بینکوں میں افغانستان کی مرکزی بینک کے تقریباً 9 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کیے گئے ہیں۔