طالبان نے منگل کے روز اپنی نگران کابینہ کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے جس میں طالبان نے اپنے پرانے کارکنوں کو اہمیت دیتے ہوئے اعلی عہدوں پر ان شخصیات کو مقرر کیا ہےجو امریکی قیادت کی اتحادی افواج اور ان کے ساتھ شامل افغان حکومت کے خلاف 20 سالہ جنگ میں نمایاں رہی ہیں۔
نئی کابینہ کے ناموں کا اعلان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو کابل میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
طالبان کے ترجمان ذبیج اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ حسن اخوند کو نئی حکومت کا قائم مقام وزیر اعظم مقرر کیا گیا ہے جب کہ ملا عبدالغنی برادر قائم مقام نائب وزیر اعظم ہوں گے۔
سراج الدین حقانی قائم مقام وزیر داخلہ مقرر کیے گئے ہیں۔ شیر محمد عباس ستنکزئی کو نئی افغان حکومت میں قائم مقام نائب وزیر خارجہ کا عہدہ دیا گیا ہے جب کہ امیر خان متقی قائم مقام وزیر خارجہ ہوں گے۔ اور مولوی عبدالحاکم کو وزیرِ انصاف مقرر کیا گیا ہے۔
وزارت دفاع کا قلم دان ملا یعقوب کو تفویض کیا گیا ہے۔ وہ قائم مقام وزیردفاع کے طور پر کام کریں گے۔ وہ طالبان تحریک کے بانی ملا عمر کے صاحب زادے ہیں۔
ملا حسن اخوند طالبان کے پہلے دور حکومت میں کابل میں قائم طالبان حکومت کے سربراہ تھے۔
ملا عبدالغنی برادر جنہیں اخوند کا نائب مقرر کیا گیا ہے، امریکہ کے ساتھ بات چیت میں طالبان وفد کی قیادت کرتے رہے ہیں اور انہوں نے ہی طالبان کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
وزیراعظم کے دو نائب ہوں گے جن میں سے ایک پر ملا برادر کا تقرر ہوا ہے۔
طالبان رہنما خلیل الرحمن حقانی کو قائم مقام وزیر برائے پناہ گزین، ملا ہدایت اللہ بدری وزیرِ خزانہ جب کہ شیخ اللہ منیر وزیرِ تعلیم ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ترجمان طالبان کا کہنا تھا کہ یہ فی الوقتی سیٹ اپ ہے جو اُمور مملکت چلانے کے لیے تشکیل دیا گیا، تاہم اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ نئی کابینہ کی منظوری طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے دی ہے۔ البتہ طالبان کے سربراہ خود کابینہ میں شامل نہیں ہوئے۔
اس بارے میں کوئی شواہد نہیں ہیں کہ نئی حکومت میں غیر طالبان عہدے دار بھی شریک ہوں گے جو کہ بین الاقوامی کمیونٹی کا ایک سب سے بڑا مطالبہ ہے۔
نئی کابینہ میں کسی خاتون وزیر کو شامل نہیں کیا گیا۔ خیال رہے کہ طالبان پہلے ہی یہ عندیہ دے چکے تھے کہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق خواتین کو بعض سرکاری محکموں میں کام کی اجازت دیں گے۔ البتہ کابینہ میں اُنہیں شامل نہیں کیا جائے گا۔
اپنی پریس کانفرنس میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جنگ اب ختم ہو چکی ہے اور اسلامی امارات کے قیام کے لیے اب میدان صاف ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ طالبان خطے کے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ روابط رکھنے کے خواہاں ہیں اور اس ضمن میں مختلف ممالک کے نمائندے افغانستان کا دورہ کر رہے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نگران حکومت کے عہدے داروں کے ناموں کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا جب کابل میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طالبان نے ہوا میں گولیاں چلائیں اور کئی صحافیوں کو حراست میں لیا۔
SEE ALSO: طالبان کا تنظیمی ڈھانچہ: کون سے رہنما اہم، قیادت کس کے ہاتھوں میں ہے؟ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں دوسری مرتبہ ہے کہ طالبان نے دارالحکومت کابل میں مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے سختی سے کام لیا ہے۔
مظاہرین نے کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کے سامنے اکھٹے ہو کر اسلام آباد پر یہ الزام لگایا کہ وہ پنج شیر میں طالبان مخالف محاذ کے خلاف جنگ میں طالبان کی مدد کر رہا ہے۔
طالبان نے پیر کے روز کہا تھا کہ انہوں نے صوبہ پنج شیر پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ وہ آخری صوبہ تھا جس پر طالبان کا قبضہ نہیں ہوا تھا۔ لڑائی سے قبل کئی دنوں تک متحدہ محاذ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے تھے، جس کی ناکامی کے بعد طالبان نے پنج شیر پر حملہ کیا۔
افغانستان کی سابقہ حکومت پاکستان پر عموماً یہ الزام لگاتی رہتی تھی کہ وہ طالبان کی مدد کر رہی ہے، جس سے اسلام آباد نے ہمیشہ انکار کیا۔
سابق نائب صدر امراللہ صالح، جو طالبان مخالف فورسز کے رہنماؤں میں شامل ہیں، پاکستان پر ایک عرصے سے سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔
منگل کے روز کئی درجن خواتین نے کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کیا جن میں سے کچھ نے ایسے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ طالبان نے پاکستان کی مدد سے ان کے بیٹے مار ڈالے ہیں۔
ہفتے کے روز طالبان فورس کے اسپیشل گروپ نے کابل میں اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ کرنے والی عورتوں کا مظاہرہ ختم کرانے کے لیے ہوا میں فائر کیے۔
منگل کے روز بھی طالبان فورس کے ارکان اس وقت حرکت میں آئے جب مظاہرین صدارتی محل کے قریب پہنچے۔ انہوں ںے ہوا میں گولیاں چلائیں اور مظاہرے کی کوریج کرنے والے کئی صحافیوں کو گرفتار کر لیا۔
)اس خبر کا کچھ مواد رائٹرز اور ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)