طالبان کے ایک ترجمان نے ٹویٹ کیا ہے کہ جمعہ کی رات کو دوحہ میں طالبان لیڈروں اور امریکی جنرل سکاٹ ملر کے درمیان ملاقات ہوئی ہے جس میں افغانستان میں تشدد کو کم کرنے کے بارے میں بات چیت ہوئی۔
ترجمان سہیل شاہین نے لکھا ہے کہ دونوں وفود نے امریکہ طالبان امن معاہدے پر عمل درآمد کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔
امریکی افواج کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جنرل ملر نے پر تشدد کارروائیوں میں کمی لانے کے بارے میں طالبان لیڈروں سے بات کی ہے۔
طالبان ترجمان شاہین کا کہنا ہے کہ حملوں اور غیر فوجی علاقوں میں رات میں کیے جانے والے چھاپوں کے بارے میں خاصی سنجیدہ گفتگو ہوئی ہے۔
ایک حالیہ بیان میں امریکی فوج ان الزامات کی تردید کی ہے۔ بیان کے مطابق گیا معاہدے کے تحت افغان فورسز پر حملے کی صورت میں ان کی سلامتی اور دفاع کے لیے غیر ملکی فوجیں کارروائی کر سکتی ہیں۔
اس معاہدے میں سرکش طالبان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ امریکی زیر قیادت غیر ملکی فوجوں پر حملہ نہیں کریں گے۔ معاہدے کے تحت اگر دہشت گردی نہ ہوئی تو غیر ملکی افواج کا جولائی 2021 تک بتدریج انخلاء کیا جائے گا۔اس مشروط انخلا کی شرط یہ ہے کہ طالبان اپنے مختلف دھڑوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں پائیدار امن قائم کر یں گے۔
فی الحال ستمبر میں ہونے والے متنازع صدارتی انتخاب کی وجہ سے افغان فریقوں کے درمیان امن مذاکرات کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں۔ جب کہ امریکہ طالبان معاہدے کے تحت یہ مذاکرات بہت پہلے ہو جانے چاہیئں تھے۔
باغی طالبان کا کہنا یہ مذاکرات اس وقت شروع ہو سکتے ہیں، جب امریکہ پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کے افغان حکومت پر زور ڈالے۔ طالبان بھی ایک ہزار قیدی رہا کریں گے جن میں اکثر کا تعلق افغان سیکیورٹی فورس سے ہے۔ قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں مذاکرات اس ہفتے کے اوائل میں ہوئے جو بے نتیجہ نکلے۔
ابھی تک افغان حکومت نے دو سو طالبان قیدیوں کو اس تحریری ضمانت کے بعد رہا کیا ہے کہ وہ آئندہ جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔ طالبان اس جزوی رہائی کے عمل کو غیر تسلی بخش سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاہدے کے تحت ان سب کو غیر مشروط طور رہا کیا جانا چاہیے۔