افغانستان میں حکام نے جمعہ کے روز بتایا ہے کہ طالبان باغیوں نے صوبہ ہرات کے مغربی علاقے میں ایک حملے میں افغان سیکیورٹی فورسز کے کم از کم 9 جوانوں کو ہلاک اور 13 کو تحویل میں لے لیا ہے۔ ہرات صوبہ ایران کی سرحد سے متصل ہے۔
ہرات کے صوبائی گورنر سید واحد قتالی نے جمعرات کو دیر گئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان نے ایران کی سرحد کے نزدیک کوشان اور گوریان اضلاع میں دو مختلف حملوں میں سیکیورٹی کی چوکیوں کو نشانہ بنایا۔
قتالی نے تصدیق کی کہ اس حملے میں سیکیورٹی فورسز کو جانی نقصان اٹھانا پڑا،، طالبان نے چوکیوں کو بم سے اڑا دیا اور کم ازکم 13 اہلکاروں کو پکڑ کر لے گئے۔
دوسری جانب طالبان نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اپنے حملے میں سرکاری افواج کے کم ازکم 13 اہلکاروں کو ہلاک اور 22 کو گرفتار کیا ہے۔ تاہم طالبان کے اس دعوے کی تصدیق ابھی نہیں ہو سکی۔
اس کے علاوہ مشرقی ننگرہار صوبے میں طالبان کے مبینہ حملوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کے کم از کم پانچ جوانوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔
دوسری طرف طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن عمل میں تیزی لانے کیلئے اپریل کے آخر میں امریکہ کی تجویز کردہ ایک کانفرنس کے انعقاد کیلئے ترکی کے شہر استنبول میں تیاریاں جاری ہیں۔
گزشتہ ماہ روس نے امن عمل کیلئے ماسکو میں ایک اجلاس کا اہتمام کیا تھا۔ اس اجلاس میں افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ ساتھ امریکہ، چین اور پاکستان کے سینئر سفارتکاروں نے شرکت کی تھی۔ روس کا کہنا ہے کہ وہ ایسے ہی ایک اجلاس کے دوبارہ انعقاد کے متعلق غور کر رہا ہے۔
روس کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریہ زیخارووا نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ماسکو اجلاس کی طرز پر ایک دوسرا اجلاس بلانے کا منصوبہ زیرغور ہے۔
اِدھر امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں، محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے رپورٹروں کو بتایا ہے کہ استنبول میں ہونے والی کانفرنس امن عمل کیلئے منعقد ہونے والی حالیہ بین الااقوامی ملاقاتوں میں ہونے والی بات چیت پر مبنی ہو گی اور یہ افغانوں کی تسلیم کردہ کانفرنس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ استنبول کانفرنس کا مقصد افغان مذاکرات کاروں کی مدد کرنا ہے تا کہ وہ مذاکرات میں پیش رفت کر سکیں اور دوحا میں جاری امن بات چیت کو مکمل کر سکیں۔
نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ طالبان لیڈروں اور افغان حکومت کے مذاکرات کاروں کے درمیان ستمبر دوہزار بیس میں دوحہ میں ہونے والی بات چیت، اسی سال امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تناظر میں کی گئی تھی۔
اس معاہدے کے تحت ، امریکہ اور نیٹو اتحاد کی زیر قیادت تمام افواج کو یکم مئی تک افغانستان سے انخلا مکمل کرنا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اس معاہدے پر نظر ثانی کر رہے ہیں کہ کیا انہیں مقررہ تاریخ یعنی یکم مئی کو اپنے اتحادیوں کی افواج کے ساتھ اپنی تین ہزار فوجی وہاں سے نکال لینے چاہئیں؟
بائیڈن انتظامیہ کی یہ نظر ثانی ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے، جب بین الافغان امن بات چیت تعطل کا شکار ہے، اور تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔
اس تعطل کی وجہ سے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے گزشتہ ماہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کو ایک خط لکھا تھا، جس میں تجویز دی گئی تھی کہ ترکی، اقوام متحدہ کی نگرانی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کی میزبانی کرے گا۔
ترکی کے وزیر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ ان کا ملک اس ملاقات کی میزبانی کرے گا کیونکہ دونوں فریق ترکی پر اعتماد کرتے ہیں۔
طالبان نے خبردار کیا ہے کہ اگر بائیڈن انتظامیہ نے یکم مئی تک اپنی افواج کا انخلا نہ کیا تو وہ دوبارہ امریکی فوج پر حملے شروع کر دیں گے۔
روس کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان کا جمعہ کے روز کہنا تھا کہ روس سمجھتا ہے کہ امریکہ اور طالبان دونوں ہی اس معاہدے سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے۔