طالبان نہ مانے تو؟

افغان نمائندوں کے درمیان مذاکرات شروع ہونے سے پہلے طالبان کا وفد دوحہ میں آپس میں بات چیت کر رہا ہے۔ 7 جولائی 2019

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے حالیہ دورہ امریکہ میں اس توقع کے اظہار کے بعد کہ افغان طالبان جلد امن مذاکرات کے جاری عمل میں کابل حکومت کے ساتھ بیٹھیں گے، اطراف سے تبصرے اور تجزیے سامنے آ رہے ہیں۔

پاکستان کے کردار کی اہمیت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ پاکستان اگر آج طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا رہا ہے تو ماضی میں اس نے یہ کردار ادا کیوں نہیں کیا؟

دوسری طرف خطے کی اہم طاقتوں اور مسلمان ملکوں کے ساتھ طالبان کے رابطے بھی اہمیت اختیار کر رہے ہیں۔ ایسے میں جب طالبان کا وفد قطر سے انڈونیشیا کے دورے پر ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کے امن عمل میں پاکستان کے علاوہ روس اور چین کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے اور ممکن ہے کہ آئندہ دو ماہ میں قابل ذکر پیش رفت دیکھنے کو ملے۔

افغان امور کے تجزیہ کار، برطانیہ میں مقیم افغان صحافی میر ویس افغان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ طالبان پر کل بھی پاکستان کا اختیار تھا، آج بھی مکمل کنٹرول ہے۔

’’ اگر پاکستان طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھا سکتا ہے تو افغان حکومت کے ساتھ کیوں نہیں؟ پاکستان اگر سنجیدگی سے چاہے تو یہ بالکل ممکن ہے‘‘۔

سلیم صافی پاکستان کے معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ افغانستان کے امور پر بالخصوص گہری نظر رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ طالبان پر پاکستان کا کنٹرول ہے۔

’’ کسی افغان کے بارے میں یہ لفظ استعمال کرنا کہ وہ کسی کے کنٹرول میں ہے، خود بہت بڑا مغالطہ ہے۔ امریکہ ڈاکٹر حامد کرزئی کو مکمل سپورٹ کر رہا تھا، ان کی سیکورٹی کا ذمہ دار تھا، لیکن کرزئی صاحب امریکہ کو کیا کہتے تھے؟ تو طالب جیسا بھی ہے، وہ افغان ہے اور اس پر کنٹرول کسی کا نہیں‘‘۔

تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگر کوئی ملک طالبان پر سب سے زیادہ دباؤ ڈال سکتا ہے یا اثر انداز ہو سکتا ہے تو وہ پاکستان ہے۔

طالبان کے دوحہ میں قائم سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین، فائل فوٹو

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر پاکستان نے باقاعدہ دعوت دی تو ان کی قیادت اسلام آباد کا دورہ ضرور کرے گی۔

کیا پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کے لیے طالبان کو کسی قابل عمل منصوبے پر راضی کر سکتا ہے؟ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ’کیٹو‘ سے وابستہ تجزیہ کار سحر خان اس بارے میں زیادہ پرامید نہیں۔

’’طالبان نے شروع دن سے جو مطالبات پیش کر رکھے ہیں، ان میں سے ایک افغانستان سے امریکہ اور ایساف کا مکمل انخلا اور دوسرا افغانستان کے موجودہ آئین میں ردوبدل ہے۔ جب تک یہ دو چیزیں نہیں ہو جاتیں طالبان کا امن پر تیار ہونا مشکل ہے‘‘۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ طالبان نے بھی پچھلے بیس برسوں میں کئی حوالوں سے خود میں لچک پیدا کی ہے لہٰذا انہیں کسی معاہدے کے لیے تیار کرنے کی پاکستان کی کوشش ایک مشکل اور پیچیدہ ٹاسک ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ان کے مطابق صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد، اگست کے اندر افغانستان میں کسی معاہدے تک پہنچ جائیں۔

’’ مسئلہ منطقی انجام تک تو نہیں، لیکن اگلے دو ماہ میں سمت واضح ہو جائے گی کہ معاملہ امن کی طرف جا رہا ہے یا ملک خدانخواستہ، مزید انتشار، بگاڑ اور انارکی کی طرف جا رہا ہے‘‘۔

وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات،

صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا کے ساتھ مشترکہ گفتگو میں کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ طاقت سے جنگ جیتنا چاہیں تو دس دن میں جیت سکتے ہیں لیکن وہ لاکھوں افراد کی زندگیوں سے نہیں کھیلنا چاہتے، اس لیے وہ مذاکرات سے مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔

صدر کے اس بیان کے پس منظر میں سوال پوچھا گیا کہ اگر طالبان کسی بھی وجہ سے کسی امن معاہدے کا حصہ نہیں بنتے تو اس انکار کی انہیں کیا قیمت چکانا پڑ سکتی ہے؟ اس پر میر وئس افغان کہتے ہیں کہ ممکن ہی نہیں کہ طالبان پاکستان کو انکار کر دیں۔

’’طالبان اندر ہی اندر سے امن معاہدے کے لیے تیار ہیں، لیکن وہ (مستقبل کے سیٹ اپ میں) زیادہ حصہ چاہتے ہیں، اس لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان اگر طالبان پر سے ہاتھ اٹھا لے اور کہہ دے کہ ہم آپ کے پیچھے نہیں کھڑے، آپ جانیں اور افغانستان جانے، تو طالبان اسی دن مذاکرات پر تیار ہو جائیں گے‘‘۔

سحر خان کے خیال میں طالبان کے خلاف طاقت اگر مسئلے کا حل ہوتا تو 20 سال سال کی اس مدت میں نتیجہ نکل آتا۔ مذاکرات ہی واحد حل ہے۔