پاکستان کی کہانی کے کچھ گمشدہ سرے ڈھونڈنے کی کوشش اور ماہرین کا یہ دعویٰ کہ کسی ملک کی تعلیمی پالیسی کے اثرات 20سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔
پاکستان میں انتخابات کا موسم ہے۔ یہ موسم نئی امیدوں اور اچھے اندازوں کو کب تک ہرا رکھے گا۔ معلوم نہیں۔۔ لیکن، لگتا یوں ہے کہ سیاست میں عقل کی بات کرنے والوں کا نظریہٴپاکستان پر ایمان مشکوک قرار دیا جا چکا ہے۔ قبائلی علاقے سے پہلی خاتون امیدوار نے کار زار انتخاب میں اترنے کی جرات کر لی ہے۔
پانچ سال مکمل کرنے والی عوامی حکومت، بانی جمہوریت کے یوم وفات پرعوامی اجتماعات سے گریز کرتی اور انتخابی سیٹوں کی جمع تفریق پر تنی رسی کو اختلافات کی گرم چنگاریوں سے بچانے کی کوشش میں ہانپتی دیکھی گئی ہے۔ مملکت کا چوتھا ستون سرکاری اعمال نامے کی نگرانی چھوڑ کر40 دن کی حکومت میں حصہ داری ملنے پرخوشی سے اترائے جا رہا ہے۔
سیاست کی گہما گہمی سے پرے، نصیر آباد اور اس سے پہلے پشاور میں توانائی کی قومی تنصیبات دھماکے سے اڑائی گئی ہیں ۔ گوجرانوالہ میں ایک اور انسانی بستی کسی کے غصے کا نشانہ بنی ہے ۔ برٹش کونسل کے ایک سروے نے پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت کو فوجی اور شرعی نظام کا حامی قرار دیا ہے۔۔۔رائے عامہ کی سیمپلنگ آبادی کے کس طبقے، کن شہروں اور دیہاتوں سے کی گئی۔۔۔ یقیناً آئیندہ کچھ روز تک اس بارے میں بات کی جاتی رہے گی۔ لیکن، ماہر معیشت زبیر اقبال کی ایک بات یاد آرہی ہے کہ کسی ملک کی تعلیمی پالیسی کے اثرات 20 سال بعد جاکر ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔
میں جتنا اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں، اتنا ہی الجھتی جاتی ہوں۔ یاد داشت میں کچھ مٹی مٹی سی لکیریں ہیں۔ کچھ ادھوری، کچھ مکمل، کچھ راستہ بھولی ہوئی کہانیاں ہیں۔
میں نے پاکستان کے جس شہر سے اسکول جانا شروع کیا ۔وہ جتنا سندھی تھا، اتنا ہی اپنے مزاج میں پنجابی اور اردو بولنے والا بھی۔ پہلی سے ساتویں کلاس تک میرے ساتھ پڑھنے والوں میں کشمیری لڑکیاں بھی تھیں اور کراچی سے تعلق رکھنے والے گھرانوں کی بھی ۔ جو اپنے شہر کے نام میں ایک نون غنہ کا اضافہ کر کے بولا کرتی تھیں۔
میرے اساتذہ میں ایک بہترین مقرر اور انتہائی سلجھی ہوئی اردو بولنے والے تھے سر ترمذی۔۔۔ اور سندھی لہجے میں حساب پڑھانے والے، سر ابڑو بھی تھے۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹرصاحب انتہائی حلیم الطبع شخص تھے۔۔۔ابتدائی کلاسوں کی تمام خواتین ٹیچرز اردو بولنے والی پنجابی گھرانوں کی خواتین تھیں۔ مگر میں نے پانچویں کلاس تک سندھی ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھی ہے اور مجھے یاد ہے کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔
میری یادداشتوں کے اس شہر میں کپڑے کی ہر دوکان ہندو دکانداروں کی تھی۔ میری دادی اور امی ہمیشہ چندر کی دوکان سے کپڑا خریدتی تھیں۔
اندرون شہر، ہندوؤں کے قدیم مکانوں والی گلی میں ایک چنے بھوننے والی اماں بیٹھتی تھی۔۔۔اُس کے گرم ریت کے کڑاہے میں بھنتے چنوں کی خوشبو ایسی لوٹ پوٹ کردینے والی تھی کہ واشنگٹن کے پینٹاگون مال میں بکنے والے گرما گرم پاپ کارنز بھی ان کے سامنے کچھ نہیں بیچ سکتے۔۔۔خریدار کیا۔ دکاندار کیا۔۔ گلی سے بلاوجہ سودا خرید کر گزرنے والےکیا ۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ خریداری کے لئے بازار جانے والا اماں کے بھنے ہوئے چنے نہ خریدتا۔۔ وہ اماں جی سندھی بولنے والی، بار بار سر پر دوپٹہ کھینچ کر اوڑھنے والی مسلمان تھیں ۔
اسی پرانے شہر کے ایک قدیم مکان کی تیسری منزل پرایک عورت چوڑیاں بیچا کرتی تھی۔۔۔گلی سے چھت تک لے جانے والا لوہے کا گول زینہ جس پر چڑھتے ہوئے آپ کی نظر سے دو چیزیں اوجھل نہیں رہ سکتی تھیں ۔۔ درمیانی منزل پر واقع لکڑی کی نیلے روغن والی کھڑکیوں سے سجا چھوٹا سا صحن اور سیڑھی کی ریلنگ سے لٹکا ایک طوطے کا پنجرہ ۔۔ طوطے کی سرخ چونچ بڑی نوکدار تھی ۔۔ وہ خود سے بے تکلف ہونےوالے بچوں کی
انگلیوں پر زور کا ایک ہی ٹھونگا لگاتا تھا۔۔ میں نے ساری زندگی میں،’میاں مٹھو چوری کھانی ہے‘ کہنے والا ایسا فلمی طوطا، چوڑیوں والی اماں کے صحن کے سوا کبھی کہیں نہیں دیکھا۔
چوڑیاں بیچنے والی یہ عورت پنجابی بولنے والی مسلمان تھی، اور حیدر آباد سے چوڑیاں لاکر فروخت کرتی تھی ۔
اسکول میں ہندو لڑکیاں بھی تھیں، جو پرانے شہر سے اسکول آیا کرتی تھیں ۔ رہائشی کالونی میں بھی ایک ہندو گھرانہ آباد تھا۔۔۔تین بچے، دو میاں بیوی۔۔بیوی حسین ساڑھیوں میں کالونی کے اکلوتے سینما میں لگنے والی ہفتہ وار پاکستانی فلم دیکھنے آتی تھی ۔۔
سنیما اتنا نزدیک تھا کہ کوئی کہیں بھی رہتا، پیدل چلے تو دس منٹ میں سنیما پہنچ جاتا تھا ۔
میری دادی پاکستانی فلموں کی بہت شوقین تھیں۔ اکثر سینما جانے والے اس مختصرپیدل راستے میں، میں نے بھی ان کا ساتھ دیا اور کئی بار ہندو خاتون کو حسین ساڑھی میں اپنے کسی بچے کے ساتھ سینما کے گیٹ کے اندر داخل ہوتے اور باہر نکلتے دیکھا ۔
ایک دن ایک واقعہ پیش آیا۔ اسکول کی اسمبلی میں اعلان کیا گیا کہ دسویں کلاس کے ہندو طالب علم وجے نے اسلامیات کے ایک نوجوان ٹیچر کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا ہے۔۔
ہیڈ ماسٹر صاحب نے یہ اعلان کرنے کے ساتھ بہت افسوس کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ اسلامیات کے ٹیچر پولیس کی حراست میں ہیں، کیونکہ وجے کے والدین نے ان پر اپنے پندرہ سالہ بیٹے کو ورغلا کر مسلمان کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کروا دیا ہے ۔۔۔۔
مجھے اب تک یاد ہے کہ اس کوا- یجوکیشن اسکول میں کلاس اول سے دہم تک تمام طلبا و طالبات نے قطار میں کھڑے ہوکر، ہاتھ اٹھا کر اسلامیات ٹیچر کی پولیس حراست سے بحفاظت واپسی کی دعا مانگی تھی۔
واقعے کے چند ہی دن بعد اسلامیات کے ٹیچر اسکول میں واپس آگئے۔۔ ہندو گھرانہ، جس کا پندرہ سالہ بیٹا تبدیلی مذہب سے گزرا تھا، علاقہ چھوڑ کر کسی دوسرے شہر چلا گیا۔۔ مسلمان ہو جانے والا لڑکا، وجے، جس کا اسلامی نام، میں اب یاد نہیں کرپا رہی، سنا تھا، اب ان ہی اسلامیات ٹیچر کے گھر میں رہ رہا تھا ۔۔بعد میں، میں نے ایک دو بار اسی لڑکے کو کالونی کی سڑک پر جیپ چلاتے ہوئے دیکھا ۔ جیپ اس کے حقیقی باپ کی تھی یا روحانی باپ کی۔۔ دونوں کی کہانی میں اس کے بعد کیا ہوا ۔ یہ جاننے کا مجھے آج بھی تجسس ہے۔
ن م راشد کہتے ہیں:
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ،
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ،
اس سے تم نہیں ڈرتے!
’ان کہی‘ سے ڈرتے ہو!
جو ابھی نہیں آئی، اُس گھڑی سے ڈرتے ہو!
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!
یہ واقعات قیام پاکستان سے پہلے کے نہیں ۔ میرے اسکول کے اولین سالوں کے ہیں ۔
میں کس ملک میں رہتی تھی۔ اس ملک میں اُس وقت کیا ہو رہا تھا ۔۔ میں اتنا ہی جانتی تھی، جتنا پہلی، دوسری کلاس کا بچہ جان سکتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔میں سوچنا چاہتی ہوں کہ پاکستان کے زیادہ تر شہر، قصبے اور گاؤں آج بھی ایسے ہی ہیں ۔۔۔۔۔میری یادداشتوں کے شہر جیسے ۔۔۔۔ جہاں سب ہنسی خوشی رہتے ہیں ۔۔اور بری خبریں صرف میڈیا کے ’مذموم‘ عزائم کی وجہ سے مجھ تک پہنچتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھی آج 2013 ءمیں، میں 1977-79 ءکے پاکستان کی کہانی کے کچھ سرے جوڑنے کی کوشش کر سکتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناقص ہی سہی۔
پانچ سال مکمل کرنے والی عوامی حکومت، بانی جمہوریت کے یوم وفات پرعوامی اجتماعات سے گریز کرتی اور انتخابی سیٹوں کی جمع تفریق پر تنی رسی کو اختلافات کی گرم چنگاریوں سے بچانے کی کوشش میں ہانپتی دیکھی گئی ہے۔ مملکت کا چوتھا ستون سرکاری اعمال نامے کی نگرانی چھوڑ کر40 دن کی حکومت میں حصہ داری ملنے پرخوشی سے اترائے جا رہا ہے۔
سیاست کی گہما گہمی سے پرے، نصیر آباد اور اس سے پہلے پشاور میں توانائی کی قومی تنصیبات دھماکے سے اڑائی گئی ہیں ۔ گوجرانوالہ میں ایک اور انسانی بستی کسی کے غصے کا نشانہ بنی ہے ۔ برٹش کونسل کے ایک سروے نے پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت کو فوجی اور شرعی نظام کا حامی قرار دیا ہے۔۔۔رائے عامہ کی سیمپلنگ آبادی کے کس طبقے، کن شہروں اور دیہاتوں سے کی گئی۔۔۔ یقیناً آئیندہ کچھ روز تک اس بارے میں بات کی جاتی رہے گی۔ لیکن، ماہر معیشت زبیر اقبال کی ایک بات یاد آرہی ہے کہ کسی ملک کی تعلیمی پالیسی کے اثرات 20 سال بعد جاکر ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔
میں نے پاکستان کے جس شہر سے اسکول جانا شروع کیا ۔وہ جتنا سندھی تھا، اتنا ہی اپنے مزاج میں پنجابی اور اردو بولنے والا بھی۔ پہلی سے ساتویں کلاس تک میرے ساتھ پڑھنے والوں میں کشمیری لڑکیاں بھی تھیں اور کراچی سے تعلق رکھنے والے گھرانوں کی بھی ۔ جو اپنے شہر کے نام میں ایک نون غنہ کا اضافہ کر کے بولا کرتی تھیں۔
میرے اساتذہ میں ایک بہترین مقرر اور انتہائی سلجھی ہوئی اردو بولنے والے تھے سر ترمذی۔۔۔ اور سندھی لہجے میں حساب پڑھانے والے، سر ابڑو بھی تھے۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹرصاحب انتہائی حلیم الطبع شخص تھے۔۔۔ابتدائی کلاسوں کی تمام خواتین ٹیچرز اردو بولنے والی پنجابی گھرانوں کی خواتین تھیں۔ مگر میں نے پانچویں کلاس تک سندھی ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھی ہے اور مجھے یاد ہے کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔
میری یادداشتوں کے اس شہر میں کپڑے کی ہر دوکان ہندو دکانداروں کی تھی۔ میری دادی اور امی ہمیشہ چندر کی دوکان سے کپڑا خریدتی تھیں۔
اندرون شہر، ہندوؤں کے قدیم مکانوں والی گلی میں ایک چنے بھوننے والی اماں بیٹھتی تھی۔۔۔اُس کے گرم ریت کے کڑاہے میں بھنتے چنوں کی خوشبو ایسی لوٹ پوٹ کردینے والی تھی کہ واشنگٹن کے پینٹاگون مال میں بکنے والے گرما گرم پاپ کارنز بھی ان کے سامنے کچھ نہیں بیچ سکتے۔۔۔خریدار کیا۔ دکاندار کیا۔۔ گلی سے بلاوجہ سودا خرید کر گزرنے والےکیا ۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ خریداری کے لئے بازار جانے والا اماں کے بھنے ہوئے چنے نہ خریدتا۔۔ وہ اماں جی سندھی بولنے والی، بار بار سر پر دوپٹہ کھینچ کر اوڑھنے والی مسلمان تھیں ۔
چوڑیاں بیچنے والی یہ عورت پنجابی بولنے والی مسلمان تھی، اور حیدر آباد سے چوڑیاں لاکر فروخت کرتی تھی ۔
اسکول میں ہندو لڑکیاں بھی تھیں، جو پرانے شہر سے اسکول آیا کرتی تھیں ۔ رہائشی کالونی میں بھی ایک ہندو گھرانہ آباد تھا۔۔۔تین بچے، دو میاں بیوی۔۔بیوی حسین ساڑھیوں میں کالونی کے اکلوتے سینما میں لگنے والی ہفتہ وار پاکستانی فلم دیکھنے آتی تھی ۔۔
سنیما اتنا نزدیک تھا کہ کوئی کہیں بھی رہتا، پیدل چلے تو دس منٹ میں سنیما پہنچ جاتا تھا ۔
میری دادی پاکستانی فلموں کی بہت شوقین تھیں۔ اکثر سینما جانے والے اس مختصرپیدل راستے میں، میں نے بھی ان کا ساتھ دیا اور کئی بار ہندو خاتون کو حسین ساڑھی میں اپنے کسی بچے کے ساتھ سینما کے گیٹ کے اندر داخل ہوتے اور باہر نکلتے دیکھا ۔
ایک دن ایک واقعہ پیش آیا۔ اسکول کی اسمبلی میں اعلان کیا گیا کہ دسویں کلاس کے ہندو طالب علم وجے نے اسلامیات کے ایک نوجوان ٹیچر کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا ہے۔۔
ہیڈ ماسٹر صاحب نے یہ اعلان کرنے کے ساتھ بہت افسوس کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ اسلامیات کے ٹیچر پولیس کی حراست میں ہیں، کیونکہ وجے کے والدین نے ان پر اپنے پندرہ سالہ بیٹے کو ورغلا کر مسلمان کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کروا دیا ہے ۔۔۔۔
مجھے اب تک یاد ہے کہ اس کوا- یجوکیشن اسکول میں کلاس اول سے دہم تک تمام طلبا و طالبات نے قطار میں کھڑے ہوکر، ہاتھ اٹھا کر اسلامیات ٹیچر کی پولیس حراست سے بحفاظت واپسی کی دعا مانگی تھی۔
ن م راشد کہتے ہیں:
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ،
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ،
اس سے تم نہیں ڈرتے!
’ان کہی‘ سے ڈرتے ہو!
جو ابھی نہیں آئی، اُس گھڑی سے ڈرتے ہو!
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!
یہ واقعات قیام پاکستان سے پہلے کے نہیں ۔ میرے اسکول کے اولین سالوں کے ہیں ۔
میں کس ملک میں رہتی تھی۔ اس ملک میں اُس وقت کیا ہو رہا تھا ۔۔ میں اتنا ہی جانتی تھی، جتنا پہلی، دوسری کلاس کا بچہ جان سکتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔میں سوچنا چاہتی ہوں کہ پاکستان کے زیادہ تر شہر، قصبے اور گاؤں آج بھی ایسے ہی ہیں ۔۔۔۔۔میری یادداشتوں کے شہر جیسے ۔۔۔۔ جہاں سب ہنسی خوشی رہتے ہیں ۔۔اور بری خبریں صرف میڈیا کے ’مذموم‘ عزائم کی وجہ سے مجھ تک پہنچتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھی آج 2013 ءمیں، میں 1977-79 ءکے پاکستان کی کہانی کے کچھ سرے جوڑنے کی کوشش کر سکتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناقص ہی سہی۔