اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے ہائی کمشنر انتونیو گوئٹیرس نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ شام کے ہمسایہ ممالک کی مدد کرے جو 25 لاکھ پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔
پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ دنیا میں پناہ گزین آبادی کے لحاظ سے شام افغانستان کو پیچھے چھوڑ رہا ہے اور ملک سے نکلنے والے افراد بھی ’’صدمے اور نفسیاتی اثرات سے باہر نہیں نکل سکے۔‘‘
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منگل کے روز خطاب کرتے ہوئے، پناہ گزینوں کے ہائی کمشنر انتونیو گوئٹیرس نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ شام کے ہمسایہ ممالک کی مدد کرے جو 25 لاکھ پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔
انہوں نے تین سا ل سے جاری لڑائی کی وجہ سے شام کے بچوں پر پڑنے والے اثرات پر بھی روشنی ڈالی۔
’’بچوں نے وہ مناظر دیکھے ہیں جو کسی بھی بچے کو نہیں دیکھنے چاہیئں اور اس کی وجہ سے جسمانی اور نفسیاتی طور پر وہ مجروح ہوگئے ہیں اور ہر روز بڑھنے والی لڑائی کی وجہ سے ان بچوں کا مستقبل ہمیشہ کے لیے تاریک ہو جائے گا۔‘‘
سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ شہریوں کے بڑی تعداد اب بھی محصور ہے، جن میں سے دو لاکھ سرکاری افواج جب کہ 45 ہزار حزب مخالف کے جنگجوؤں کے محاصرے میں ہیں۔
انہوں نے دونوں فریقوں پر زور دیا کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد ان لوگوں تک پہنچانے کی اجازت دیں جن کو اس کی ضرورت ہے۔
’’ جن لوگوں کو کھانے، پانی یا طبی سامان کی اشد ضرورت ہے ان تک اس کی فراہمی سے انکار ان لوگوں کی زندگی اور انسانی وقار کے بنیادی حقوق کے منافی ہے لیکن اس کے باوجود محاصروں قتل عام اور مظالم کی مسلسل اطلاعات آ رہی ہیں۔‘‘
بان کی مون نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’بین الاقوامی برادری انصاف کے حصول اور اس کی صریحاً خلاف ورزیوں کے احتساب کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔‘‘
ملک چھوڑنے پر مجبور ہونے والوں کے علاوہ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 65 لاکھ افراد شام کے اندر ہی بے گھر ہو چکے ہیں۔ مارچ 2011ء میں شروع ہونے والے بحران سے اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور سات لاکھ زخمی ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منگل کے روز خطاب کرتے ہوئے، پناہ گزینوں کے ہائی کمشنر انتونیو گوئٹیرس نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ شام کے ہمسایہ ممالک کی مدد کرے جو 25 لاکھ پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔
انہوں نے تین سا ل سے جاری لڑائی کی وجہ سے شام کے بچوں پر پڑنے والے اثرات پر بھی روشنی ڈالی۔
’’بچوں نے وہ مناظر دیکھے ہیں جو کسی بھی بچے کو نہیں دیکھنے چاہیئں اور اس کی وجہ سے جسمانی اور نفسیاتی طور پر وہ مجروح ہوگئے ہیں اور ہر روز بڑھنے والی لڑائی کی وجہ سے ان بچوں کا مستقبل ہمیشہ کے لیے تاریک ہو جائے گا۔‘‘
سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ شہریوں کے بڑی تعداد اب بھی محصور ہے، جن میں سے دو لاکھ سرکاری افواج جب کہ 45 ہزار حزب مخالف کے جنگجوؤں کے محاصرے میں ہیں۔
انہوں نے دونوں فریقوں پر زور دیا کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد ان لوگوں تک پہنچانے کی اجازت دیں جن کو اس کی ضرورت ہے۔
’’ جن لوگوں کو کھانے، پانی یا طبی سامان کی اشد ضرورت ہے ان تک اس کی فراہمی سے انکار ان لوگوں کی زندگی اور انسانی وقار کے بنیادی حقوق کے منافی ہے لیکن اس کے باوجود محاصروں قتل عام اور مظالم کی مسلسل اطلاعات آ رہی ہیں۔‘‘
بان کی مون نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’بین الاقوامی برادری انصاف کے حصول اور اس کی صریحاً خلاف ورزیوں کے احتساب کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔‘‘
ملک چھوڑنے پر مجبور ہونے والوں کے علاوہ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 65 لاکھ افراد شام کے اندر ہی بے گھر ہو چکے ہیں۔ مارچ 2011ء میں شروع ہونے والے بحران سے اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور سات لاکھ زخمی ہوچکے ہیں۔