شام میں سیاسی قیادت اور باغی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ملک میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے بین الاقوامی سفارتکاری کا جو آغاز کیا گیا ہے وہ کامیاب نہیں ہوگا۔
ان رہنماؤں نے کہا ہے کہ جب تک یہ واضح نہ کر دیا جائے کہ نہ صرف صدر اسد بلکہ ان کے قریبی حلقے اور خفیہ اداروں کے لوگوں کو ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا جائے گا، اس بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔
یہ اپوزیشن قائدین اور باغی رہنماء جو گزشتہ چار برسوں سے صدر اسد کو نکال باہر کرنے کے لئے کوشاں ہیں اب بھی کسی سمجھوتے کے لئے تیار نہیں۔
شام کی خانہ جنگی کے سیاسی حل کے لئےجس میں اب تک تقریبا ڈھائی لاکھ لوگ مارے جا چکے ہیں بین الاقوامی پیش رفت کو وہ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انھیں خوف ہے کہ اسد کے حامی روس اور ایران مغربی ممالک کو پس پشت نہ ڈال دیں۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ، روس اور ایران سمیت 17 ممالک کے درمیان ویانا میں ہونے والی بات چیت میں مزید توسیع نہیں ہونی چاہئے۔
اپوزیشن قائدین کا کہنا ہے کہ ایران کو صرف اس صورت میں بات چیت میں شامل رکھا جائے جب وہ 2014ء کی جنیوا قرارداد کو تسلیم کرلے جس میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
مغربی ممالک کے حمایت یافتہ سب سے بڑے اپوزیشن گروپ شامی قومی اشتراک کے نائب صدر، نغم الغادری کے بقول، ’ہم نہیں کہتے کہ ایران شامل نہ ہو بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ ایران جنیوا قرارداد تسلیم کرے کہ اسد کا کوئی مستقبل نہیں۔ عبوری حکومت کے پہلے دن سے بشارالاسد کی گنجائش نہیں۔ ہاں اگر معاہدے پر دستخط سے پہلے بات چیت کے دوران وہ حکومت میں رہتا ہے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں‘۔
باغی فوجیوں کے اتحاد کے ترجمان، ذکریا مالاحفجی کہتےہیں کہ، ’شام میں لڑنے والے جنگجو عبوری حکومت میں بھی نہ صرف اسد بلکہ اس کے حلقے یا خفیہ اداروں کے کسی فرد کو برداشت نہیں کریں گے، کیونکہ ان کے ہاتھ شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں‘۔
شامی سیاسدانوں، سرگرم کارکنوں اور جنگجو وں کی ایک محدود تعداد ہی یہ سمجھتی ہے کہ اس مرحلے پر کوئی امن سمجھوتہ ممکن ہے، وہ اس سلسلے میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازعہ کی جانب توجہ دلاتے ہیں اس لئے کہ ایران نے یہ دھمکی دی ہے کہ وہ مذاکرات کے اگلے مرحلے میں شرکت نہیں کرے گا ان کا یہ خیال ہے کہ حالات کسی سیاسی حل کے لئے سازگار معلوم نہیں ہوتے خاص کر جب روس اس حکومت کو بچانے کے لئے میدان جنگ میں کود پڑا ہے
بسام الکویتی ایک سرگرم سیاسی کارکن ہیں، جو اپوزیشن رہنماوں اور اعلیٰ باغی کمانڈروں کی سوچ سے واقف ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ، ’تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کسی بھی مسلے کا سیاسی حل طاقت کے استعمال کے خدشے کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دینے یا ملک کی تقسیم کی بات کررہے ہوں لیکن یہ دنوں باتیں ناقابل قبول ہیں۔ لہذا موجودہ حالات میں بنیادی طور پر کوئی بھی کسی حقیقی سیاسی حل پر یقین نہیں رکھتا۔