شام میں حزب مخالف کے ارکان کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد کے خلاف کارروائی میں کسی بھی طرح کی تاخیر مزید شہریوں کو گزند پہنچانے کا موقع فراہم کرسکتی ہے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما کی طرف سے شام کے خلاف فوجی کارروائی کے فیصلے کو کانگریس کی منظوری سے مشروط کرنے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
ہفتہ کو واشنگٹن میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ شام کی حکومت کی طرف سے کیمیائی ہھتیاروں کے مبینہ استعمال پر اس کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے گی لیکن یہ اقدام امریکی کانگریس کی منظوری کے بعد کیا جائے گا۔
شام میں حزب مخالف کے ارکان کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد کے خلاف کارروائی میں کسی بھی طرح کی تاخیر مزید شہریوں کو گزند پہنچانے کا موقع فراہم کرسکتی ہے۔
صدر اوباما نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ کو شام کی حکومت کے اہداف کے خلاف فوجی کارروائی کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ گوکہ انھیں اختیار ہے کہ وہ حملے کا حکم دے سکتے ہیں مگر وہ سمجھتے ہیں اس معاملے پر امریکہ میں بحث بھی لازمی ہے۔
شام کی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام کو مسترد کرتی ہے۔ لیکن مسٹر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں یہ واضح ہے کہ ’’ایک ہزار سے زائد افراد‘‘ اپنی ہی حکومت کی طرف سے کیے گئے (کیمیائی) حملے میں ہلاک ہوئے۔
ادھر فرانس کے وزیر داخلہ مانیئول والز نے اتوار کو کہا کہ ان کا ملک شام کے خلاف تنہا کوئی کارروائی نہیں کرے گا اور پیرس کو اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے وہ امریکی کانگریس کے فیصلے کا انتظار کرے گا۔
دریں اثناء شام پر ممکنہ امریکی فوجی کارروائی کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں۔
انسانی حقوق کی ایک موقر تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو شام کے معاملے کو انصاف کی بین الاقوامی عدالت میں بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ معاملے کو عدالت میں بھیجتے ہوئے شام کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی لگائی جائے اور وہاں بین الاقوامی مبصر تعینات کرتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کی جائیں۔
ہفتہ کو واشنگٹن میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ شام کی حکومت کی طرف سے کیمیائی ہھتیاروں کے مبینہ استعمال پر اس کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے گی لیکن یہ اقدام امریکی کانگریس کی منظوری کے بعد کیا جائے گا۔
شام میں حزب مخالف کے ارکان کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد کے خلاف کارروائی میں کسی بھی طرح کی تاخیر مزید شہریوں کو گزند پہنچانے کا موقع فراہم کرسکتی ہے۔
صدر اوباما نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ کو شام کی حکومت کے اہداف کے خلاف فوجی کارروائی کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ گوکہ انھیں اختیار ہے کہ وہ حملے کا حکم دے سکتے ہیں مگر وہ سمجھتے ہیں اس معاملے پر امریکہ میں بحث بھی لازمی ہے۔
شام کی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام کو مسترد کرتی ہے۔ لیکن مسٹر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں یہ واضح ہے کہ ’’ایک ہزار سے زائد افراد‘‘ اپنی ہی حکومت کی طرف سے کیے گئے (کیمیائی) حملے میں ہلاک ہوئے۔
ادھر فرانس کے وزیر داخلہ مانیئول والز نے اتوار کو کہا کہ ان کا ملک شام کے خلاف تنہا کوئی کارروائی نہیں کرے گا اور پیرس کو اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے وہ امریکی کانگریس کے فیصلے کا انتظار کرے گا۔
دریں اثناء شام پر ممکنہ امریکی فوجی کارروائی کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں۔
انسانی حقوق کی ایک موقر تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو شام کے معاملے کو انصاف کی بین الاقوامی عدالت میں بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ معاملے کو عدالت میں بھیجتے ہوئے شام کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی لگائی جائے اور وہاں بین الاقوامی مبصر تعینات کرتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کی جائیں۔