شام ک سرکاری میڈیا اور سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ سرکاری فورسز نے شدید مزاحمت کے بعد اتوار کو تاریخی شہر تدمر (پلمیرا) کا قبضہ شدت پسند گروپ داعش سے واگزار کروا لیا ہے۔
داعش نے گزشتہ سال مئی میں یہاں قبضہ کر کے تقریباً دو ہزار سال پرانے ورثے کو تباہ و برباد کر دیا تھا جس پر عالمی سطح تشویش کی لہر دوڑ گئی اور شدت پسندوں کے اس اقدام کی شدید مذمت کی گئی۔
شامی حکومت کے فوجی دستے اور اس کی اتحادی ملیشیاؤں کے جنگجوؤں نے تین ہفتے قبل تدمر کی جانب پیش قدمی شروع کی تھی جن میں انہیں روس کے جنگی طیاروں کی مدد بھی حاصل رہی۔ شامی فوج نے رواں ہفتے شہر کے مضافات میں پہنچنے کے بعد داعش کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کی تھی۔
شام میں صورتحال پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق سرکاری فوجی دستے کئی روز کی بمباری کے بعد ہفتے کو شہر میں داخل ہوئے اور کئی نواحی علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔
تنظیم کے مطابق شہر میں داعش کے باقی ماندہ جنگجو مشرق کی طرف دیر الزور کی طرف پسپا ہو رہے ہیں۔
آبزرویٹری کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمن نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ شامی فوجی اہلکار اوران کی حامی ملیشیاؤں کے جنگجو تدمر کے مغربی اور شمالی جانب سے شہر میں داخل ہوئے۔
ان کے بقول سرکاری فوج کے زیرِ قبضہ آنے والے علاقے میں تدمر میں واقع رومن دور کے معروف کھنڈرات اور قدیم شہر بھی شامل ہے۔
دریں اثنا روس کی وزارتِ دفاع نے کہا کہ اس کے جنگی طیاروں نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران تدمر اور اس کے نواح میں 40 سے زائد پروازیں کیں جن میں داعش کے 158 اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔
ہفتے کو ماسکو سے جاری ایک بیان میں روسی وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ بمباری میں داعش کے 100 سے زائد جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔