شام جنگ بندی جاری، امداد کی فراہمی میں اسد کی اجازت درکار

حلب

استفان ڈی مستورا نے جنیوا میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’تشدد کی کارروائیوں میں کافی کمی واقع ہوئی ہے‘‘ اور زمینی صورتِ حال ’’ڈرامائی طور پر بہتر ہوئی ہے، جب کہ کوئی فضائی کارروائی نہیں ہو رہی‘‘

امریکہ اور روس کی ثالثی میں شام میں طے ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے پر اس جنگ زدہ ملک میں زیادہ تر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ تاہم، محصور قصبہ جات اور علاقوں میں، جو سمجھوتے کا ایک کلیدی حصہ ہے، اِس پر عمل درآمد نہیں ہوا ایسے میں جب شامی حکومت اس بات پر مصر ہے کہ حلب کے شہر کو بھجوائی جانے والی انسانی ہمدردی کی امداد حکومت کے تعاون سے تقسیم کی جائے۔

امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ دیگر معاملات میں محفوظ گزرگاہ کے لیے وہ نہ صرف صدر بشار الاسد کی حکومت بلکہ لڑنے والے دیگر فریق کی جانب سےضمانتوں کے منتظر ہیں۔

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے شام، استفان ڈی مستورا نے جنیوا میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’تشدد کی کارروائیوں میں کافی کمی واقع ہوئی ہے‘‘ اور زمینی صورتِ حال ’’ڈرامائی طور پر بہتر ہوئی ہے، جب کہ کوئی فضائی کارروائی نہیں ہو رہی‘‘۔

تاہم، اُنھوں نے مزید کہا کہ امداد فراہم کی جانی ہے چونکہ حکومتِ شام نے اقوام متحدہ کو اجازت نامے کا مراسلہ نہیں بھیجا؛ حالانکہ، اُنھوں نے بتایا کہ اُنھیں توقع ہے کہ ترک شام سرحد پر منتظر امدادی کمک بدھ کی شام کسی وقت 250000 شہریوں میں تقسیم کی جائے گی، جو مشرقی حلب کے باغیوں کے زیر کنٹرول علاقہ ہے۔

سرگرم کارکنان کو شکوک لاحق ہیں آیا جنگ بندی برقرار رہ سکتی ہے۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قبل رواں برس کے آغاز پر امریکہ و روس کے مابین طے ہونے والی جنگ بندی، جو محض چند ہفتے جاری رہ سکی تھی، وہ بھی اس لیے برقرار نہ رہ سکی تھی چونکہ امدادی رسد کی فراہمی میں رکاوٹیں حائل تھیں۔