شام:متاثرین کی تعداد بڑھ کر35 لاکھ ہوجانے کا خدشہ

اردن

اقوام متحدہ نے شام میں بے گھر ہونے والوں اور ہمسایہ ممالک بھاگ نکلنے والے پناہ گزینوں کی امداد کے لیے 4.4 ارب ڈالر کی ریکارڈ رقم اکٹھی کرنے کے لیے بین الاقوامی امداد کی اپیل
اقوام متحدہ کی پیش گوئی کے مطابق، رواں سال کے اواخر تک شام کے تارکین وطن کی تعداد بڑھ کر تقریباً 35لاکھ ہوجائے گی۔ ایسے میں، عالمی ادارے نے شام میں بے گھر ہونے والوں اور ہمسایہ ممالک میں پناہ لینےپر مجبور ہونے والوں کو امدادی سہولتیں فراہم کرنے کی کارروائیوں کے لیے 4.4 ارب ڈالر کی ریکارڈ بین الاقوامی امداد کی اپیل جاری کی ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ کی نامہ نگار لیزا شلائین نے جنیوا سے اطلاع دی ہے کہ اقوام متحدہ نے شامی متاثرین کی تعداد کا اندازہ کم از کم ایک کروڑ لگایا ہے، جو کہ ملک کی مجموعی آبادی کا نصف ہے، جنھیں اس سال زندگی بچانے کی کوششوں میں مدد درکار ہوگی، اگر اس جنگ کے خاتمے کا کوئی سیاسی حل تلاش نہیں کرلیا جاتا۔

متاثرین کی امداد کی خاطر، عالمی ادارے کی طرف سے کی جانے والی امدادی کارروائیوں کے لیے اقوام متحدہ 4.4ارب ڈالر کی رقم اکٹھا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ساتھ ہی، اردن اور لبنانی حکومتیں اپنے ملکوں میں پناہ لینے والے متاثرین کی دیکھ بھال کے لیے 83کروڑ ڈالر کی امداد کی درخواست کر چکے ہیں۔

مہاجرین سے متعلق اقوام متحدہ کے کمشنر، اینٹونیو گتریز نے فوری بین الاقوامی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

گتریز کا کہنا ہے کہ 16لاکھ شامی مہاجرین ہمسایہ ممالک میں پناہ لے چکے ہیں اور اس سال کے اواخر تک یہ تعداد بڑھ کر 35لاکھ ہوجائے گی۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق شام ہی میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد 68لاکھ ہو چکی ہے، جنھیں بھی امداد درکار ہے۔

اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ 5.2ارب ڈالر کی رقم حیران کُن ہے، اُنھوں نے اسے کم سے کم درکار مالیت بتایا۔

اُن کے بقول، امریکی یہ رقم 32روز میں آئس کریم کھانے پر خرچ کرتے ہیں۔ آسٹریلیا کے لوگ یہ رقم 10روز کے اپنے غیر ملکی دوروں پر خرچ کرتے ہیں، جب کہ اتنی ہی رقم جرمن ڈرائیور چھ ہفتوں میں پیٹرول پر خرچ کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے معاون سکریٹری جنرل برائے ہنگامی امداد اور رابطہ کار، ویلری اموس کا کہنا ہے کہ شام کی جنگ میں ہونے والی اموات 80000سے تجاوز کرچکی ہیں، اور اُنھوں نے زندہ بچ جانے والوں کے لیے مزید بین الاقوامی امداد کا مطالبہ کیا ہے۔