جان کیری نے کہا ہے کہ سفارت کار اس تنازع کو اب بھی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، جو اب تک ہزاروں ہلاکتوں کا باعث بن چکا ہے
واشنگٹن —
امریکی وزیر خارجہ جان کیری شام کے باغیوں کی حمایت میں منعقد ہونے والے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے دوحہ روانہ ہو گئے ہیں۔
ہفتے کو قطر میں ہونے والی یہ ملاقات اس سلسلے کی پہلی نشست ہوگی جسے ’فرینڈز آف سیریا‘ گروپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امریکہ باغی فورسز کو اسلحہ فراہم کرنے کا اعلان کرچکا کیا، جو شامی صدر بشار الاسد کو ہٹانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔
واشنگٹن سے روانہ ہونے سے قبل، کیری نے کہا کہ سفارت کار اس تنازع کو اب بھی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، جو اب تک ہزاروں ہلاکتوں کا باعث بن چکا ہے۔
امریکہ اور برطانیہ حکومت شام اور اُس کے مخالفین کے درمیان جنیوا میں براہِ راست مذاکرات پر زور دے رہے ہیں، جس کو یورپی یونین اور متعدد عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے، جِن میں مصر شامل ہے۔
تاہم، جمعے کو ایسو سی ایٹڈ پریس سے ایک انٹرویو میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے متنبہ کیا کہ اس قسم کا منصوبہ پٹڑی سے اتر بھی سکتا ہے، اگر امریکہ نے شام پر ’نوفلائی زون‘ کی بات چھیڑی۔
جمعے ہی کے دِن، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے جرمن چانسلر آنگلا مرخیل کے ساتھ ایک تقریب میں شرکت کے موقعے پر باغی گروپوں کو مسلح کرنے کے امریکی منصوبے پر نکتہ چینی کی۔
پیوٹن نے شام کی حکومت سے روس کی طرف سے ہتھیار فراہم کرنے کے سمجھوتے کا دفاع بھی کیا۔
شام میں، باغی فوجوں کے کمانڈر نے کہا ہےکہ اُن کے جنگجوؤں کو نئے ہتھیار موصول ہوئے ہیں۔
جنرل سلیم ادریس نے ’الجزیرہ ٹیلی ویژن‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ نئے ہتھیار اُن کے فوج کی مضبوطی کا باعث بنیں گے، اور پھر فرانس کے خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اسلحہ ملنے سے زمین پر لڑی جانے والی جنگ کا
دھارا تبدیل ہو کر رہ جائے گا۔
اُنھوں نے فوجی رسد کے ذریعے کو ظاہر کرنے سے انکار کیا۔
ہفتے کو قطر میں ہونے والی یہ ملاقات اس سلسلے کی پہلی نشست ہوگی جسے ’فرینڈز آف سیریا‘ گروپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امریکہ باغی فورسز کو اسلحہ فراہم کرنے کا اعلان کرچکا کیا، جو شامی صدر بشار الاسد کو ہٹانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔
واشنگٹن سے روانہ ہونے سے قبل، کیری نے کہا کہ سفارت کار اس تنازع کو اب بھی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، جو اب تک ہزاروں ہلاکتوں کا باعث بن چکا ہے۔
امریکہ اور برطانیہ حکومت شام اور اُس کے مخالفین کے درمیان جنیوا میں براہِ راست مذاکرات پر زور دے رہے ہیں، جس کو یورپی یونین اور متعدد عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے، جِن میں مصر شامل ہے۔
تاہم، جمعے کو ایسو سی ایٹڈ پریس سے ایک انٹرویو میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے متنبہ کیا کہ اس قسم کا منصوبہ پٹڑی سے اتر بھی سکتا ہے، اگر امریکہ نے شام پر ’نوفلائی زون‘ کی بات چھیڑی۔
جمعے ہی کے دِن، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے جرمن چانسلر آنگلا مرخیل کے ساتھ ایک تقریب میں شرکت کے موقعے پر باغی گروپوں کو مسلح کرنے کے امریکی منصوبے پر نکتہ چینی کی۔
پیوٹن نے شام کی حکومت سے روس کی طرف سے ہتھیار فراہم کرنے کے سمجھوتے کا دفاع بھی کیا۔
شام میں، باغی فوجوں کے کمانڈر نے کہا ہےکہ اُن کے جنگجوؤں کو نئے ہتھیار موصول ہوئے ہیں۔
جنرل سلیم ادریس نے ’الجزیرہ ٹیلی ویژن‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ نئے ہتھیار اُن کے فوج کی مضبوطی کا باعث بنیں گے، اور پھر فرانس کے خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اسلحہ ملنے سے زمین پر لڑی جانے والی جنگ کا
دھارا تبدیل ہو کر رہ جائے گا۔
اُنھوں نے فوجی رسد کے ذریعے کو ظاہر کرنے سے انکار کیا۔