سرگرم کارکنوں کی طرف سے آن لائن شائع کی جانے والی وڈیوز میں دمشق کے مشرقی مضافات پر ہونے والے مزید فضائی حملوں کو دکھایا گیا ہے
واشنگٹن —
شام کےسرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ملک کے اُن علاقوٕ ں میں جِن پر باغیوں کا کنٹرول ہے، حکومت کے فضائی حملوں کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں، ایسے میں جب شام کی خانہ جنگی کے خاتمے کی کوششوں کے سلسلے میں امن کے بین الاقوامی ایلچی لخدار براہیمی نے دوسری بار دمشق کےدورے کا آغاز کیا ہے۔
مقامی کارکنوں نے بتایا ہے کہ اتوار کے روز ہما کے صوبے میں واقع حلفایہ کے وسطی شہر کی ایک بیکری حکومتی جنگی جہازوں کے حملوں کا نشانہ بنی، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔
برطانیہ میں قائم ’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس ‘ نے کہا ہے کہ جنگی جہازوں نے صوبہٴ حلب کے شمالی قصبے السفیرہ پر حملے کیے ہیں، جِن میں کم از کم 13افراد ہلاک ہوئے۔ اِس قصبے میں شام کی فوج کی وسیع تنصیبات قائم ہیں، جِن پر قبضہ حاصل کرنے کےلیےباغی پہ در پے کوششیں کرتے رہے ہیں۔
سرگرم کارکنوں کی طرف سے انٹرنیٹ پر شائع ہونے والی وڈیوز میں دمشق کے مشرقی مضافات پر ہونے والے مزید فضائی حملوں کو دکھایا گیا ہے، ایسے میں جب حکومتی فوج باغیوں کو صدر بشار الاسد کے اقتدار کے مرکز سے باہر نکالنے کی کوششیں کر رہی ہے۔
ایک روز قبل بیروت ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد براہیمی نے لبنان سے شامی دارالحکومت کی طرف کا سفر کیا۔ اپنے پچھلے دوروں میں، براہیمی براہِ راست دمشق اُترا کرتے تھے، لیکن چونکہ حالیہ ہفتوں کے دوران شہر کے ہوائی اڈے کے قریب لڑائی میں شدت آگئی ہے اِس لیے یہ تنصیب ناکارہ ہو چکی ہے۔ دمشق کے شیرٹن ہوٹل میں آمد کے وقت اُنھوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت نہیں کی۔
لبنان ہوائی اڈے کے حکام کا کہنا ہے کہ متوقع طور پر اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی پیر کو شامی صدر بشار الاسد سےملاقات کرنے والے ہیں۔
شام کے وزیر اطلاعات عمران الزوبی نے دمشق میں ہونے والی ایک اخباری کانفرنس میں بتایا کہ حکومت مکالمے کے ذریعے تنازع کو حل کرنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم، اُ نھوں نے باغی اور اُن کے حامیوں کو متنبہ کیا کہ ایسے اقدام کا ’وقت ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے‘۔
باغی اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے جلاوطن گروپوں نے مسٹر اسد کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا ہے۔ برعکس اِس کے، اُن کا مطالبہ ہے کہ وہ اپنے 12برس کےاقتدار سے علیحدہ ہوجائیں۔ مارچ 2011ء میں جب اپوزیشن نے ایک پُر امن تحریک کا آغاز کیا، ہونے والی پُر تشدد حکومتی کارروائیوں میں اب تک 40000سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
مقامی کارکنوں نے بتایا ہے کہ اتوار کے روز ہما کے صوبے میں واقع حلفایہ کے وسطی شہر کی ایک بیکری حکومتی جنگی جہازوں کے حملوں کا نشانہ بنی، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔
برطانیہ میں قائم ’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس ‘ نے کہا ہے کہ جنگی جہازوں نے صوبہٴ حلب کے شمالی قصبے السفیرہ پر حملے کیے ہیں، جِن میں کم از کم 13افراد ہلاک ہوئے۔ اِس قصبے میں شام کی فوج کی وسیع تنصیبات قائم ہیں، جِن پر قبضہ حاصل کرنے کےلیےباغی پہ در پے کوششیں کرتے رہے ہیں۔
سرگرم کارکنوں کی طرف سے انٹرنیٹ پر شائع ہونے والی وڈیوز میں دمشق کے مشرقی مضافات پر ہونے والے مزید فضائی حملوں کو دکھایا گیا ہے، ایسے میں جب حکومتی فوج باغیوں کو صدر بشار الاسد کے اقتدار کے مرکز سے باہر نکالنے کی کوششیں کر رہی ہے۔
ایک روز قبل بیروت ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد براہیمی نے لبنان سے شامی دارالحکومت کی طرف کا سفر کیا۔ اپنے پچھلے دوروں میں، براہیمی براہِ راست دمشق اُترا کرتے تھے، لیکن چونکہ حالیہ ہفتوں کے دوران شہر کے ہوائی اڈے کے قریب لڑائی میں شدت آگئی ہے اِس لیے یہ تنصیب ناکارہ ہو چکی ہے۔ دمشق کے شیرٹن ہوٹل میں آمد کے وقت اُنھوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت نہیں کی۔
لبنان ہوائی اڈے کے حکام کا کہنا ہے کہ متوقع طور پر اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی پیر کو شامی صدر بشار الاسد سےملاقات کرنے والے ہیں۔
شام کے وزیر اطلاعات عمران الزوبی نے دمشق میں ہونے والی ایک اخباری کانفرنس میں بتایا کہ حکومت مکالمے کے ذریعے تنازع کو حل کرنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم، اُ نھوں نے باغی اور اُن کے حامیوں کو متنبہ کیا کہ ایسے اقدام کا ’وقت ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے‘۔
باغی اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے جلاوطن گروپوں نے مسٹر اسد کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا ہے۔ برعکس اِس کے، اُن کا مطالبہ ہے کہ وہ اپنے 12برس کےاقتدار سے علیحدہ ہوجائیں۔ مارچ 2011ء میں جب اپوزیشن نے ایک پُر امن تحریک کا آغاز کیا، ہونے والی پُر تشدد حکومتی کارروائیوں میں اب تک 40000سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔