شام میں صورت حال کشیدہ، جنگ چھڑنے کا خطرہ

شام کے جنگ سے متاثرہ علاقے کوبانی میں ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ ملبے کے ڈھیر پر بیٹھی ہے۔ اپریل 2019

اقوام متحدہ نے انتباہ کیا ہے کہ شمال مغربی شام میں تین دن کی خاموشی کے بعد لڑائی دوبارہ چھڑ سکتی ہے۔ امدادی اداروں نے تنازعوں کی خبر دی ہے جن میں پورے شمالی ہما، جنوبی اندلیب اور مغربی حلب کے علاقوں میں ایک بار پھر حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔

ادلیب اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں لگ بھگ 30 لاکھ عام شہری جن میں سے ایک تہائی بچے ہیں، تشدد کی صورت حال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انسانی ہمددردی کے امور کے رابطہ دفتر او سی ایچ اے نے رپورٹ دی ہے کہ ہر ایک کے لیے خاص طور پر بچوں کے لیے حالات پریشان کن ہیں۔

شام کی حکومت کی فورسز، جنہیں اپنے روسی اتحادیوں کی پشت پناہی حاصل ہے، شام میں باغیوں کے آخری مضبوط گڑھ ادلیب پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے سخت فوجی کارروائی کر رہی ہیں۔

او سی ایچ اے کے ترجمان جینز لیارکے نے کہا ہے کہ اس گرداب میں پھنسے بہت سے بچوں کو سوائے جنگ کے کسی چیز کا علم نہیں ہے۔

ہنگامی امداد سے متعلق ہمارے رابطہ کار جینز لیارکے نے گزشتہ ہفتے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے ان میں سے کچھ بچوں کے ساتھ بات کی تھی اور انہوں نے انہیں بتایا کہ وہ خوفزدہ ہیں، وہ بے گھر ہو چکے ہیں اور ان کے اسکولوں پر بمباری کی جا رہی ہے اور وہ صرف اور صرف یہ ہی چاہتے ہیں کہ بمباری بند ہو۔ اگر ان بچوں کی مایوس کن آوازوں کی کوئی اہمیت ہے اور یا ان میں کوئی وزن ہے تو مزید گولہ باری اور مزید فضائی حملے اور مزید تشدد غلط جواب ہے۔

اقوام متحدہ نے خبر دی ہے کہ صوبے ادلیب میں چار لاکھ چالیس ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور گزشتہ اپریل سے اب تک کم از کم 450، لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے بہت سے بچے تھے۔

او سی ایچ اے کے ترجمان جینز لیارکے نے کہا ہے کہ اس عرصے کے دوران اسکولوں، اسپتالوں، مارکیٹس، عبادت گاہوں اور بہت سی اہم عمارات پر بمباری کی گئی ہے۔

او سی ایچ اے کے ترجمان جینز لیارکے نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ اپنی پارٹنرز این جی او کے ساتھ مشاورت کر رہا ہے جن کی طرف سے وہ متحارب فریقوں کو یہ تفصیلات فراہم کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام جاری رہتا ہے یا نہیں، انسانی ہمددردی کا بین الاقوامی قانون کسی بھی صورت حال میں طبی مراکز کو ہدف بنانے کو ایک جنگی جرم قرار دیتا ہے۔