یورپی یونین کا شام پر دباؤ میں اضافے پر زور

اِس سے قبل پیر ہی کے روز یورپی کمیشن کے صدر جوز مینوئل باروسو نے شام کی صورتِ حال کو دنیا کے ضمیر پر ایک دھبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ اس معاملے کو حل کرائے
یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے متعدد کلیدی ممالک نے حالیہ دنوں کے دوران شام میں تشکیل پانے والے اپوزیشن اتحاد کے لیے بین الاقوامی حمایت کے حصول کو پختہ کرنےکی کوششیں شروع کردی ہیں۔

شام کے اپوزیشن راہنما، معاذ الخطیب نے پیر کے روز برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی۔

بعدازاں، جرمن وزیرِ خارجہ گائدو ویسٹرویل نے بتایا کہ الخطیب کے اتحاد کی مزید حمایت کی جانی چاہیئے۔اُن کے بقول، ضرورت اِس بات کی ہے کہ شام کے قومی اتحاد کو سیاسی طور پر تسلیم کرنے کا اعادہ کیا جائے، اور یہ کہ میرے خیال میں ایسے اقدام کے لیے یہ ایک موزون ترین لمحہ ہے۔

شام کے صدر بشار الاسد کی برطرفی کے لیے بڑھتی ہوئی حمایت کے باوجود، کچھ یورپی اقوام نئے تشکیل پانے والے اتحاد کو مکمل طور پر قبول کرنے سے گریزاں ہیں۔

برطانوی وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے اِس امید کا اظہار کیا کہ اِس ضمن میں جلد تبدیلی آنے والی ہے۔

امریکہ کے ساتھ ساتھ، یورپی یونین کے متعدد ممالک اِس ہفتے کے آخر میں مراقش میں ’ فرینڈز آف سیریا‘ کے ساتھ ملاقات کرنے والے ہیں جِس کا مقصد حکومت کی تبدیلی ہے۔

ایسے میں جب جرمنی اور برطانیہ نےحمایت کےیقین کا اظہار کیا، یورپی یونین کی امورِ خارجہ کی سربراہ، کیتھرین ایشٹن نے متنبہ کیا ہے کہ حکومت ِشام اور مخالفین کے در میان سیاسی حل کی ضرورت ہے جو اِسےاقتدار سے علیحدہ کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔

اِس سے قبل پیر ہی کو یورپی کمیشن کے صدر جوز مینوئل باروسو نے شام کی صورتِ حال کو دنیا کےضمیر پر ایک دھبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ اِس معاملے کو حل کرائے۔

باروسو نے یہ بیان ناروے کے شہر اوسلو میں یورپی یونین کو رواں سال کا نوبیل امن پرائز دینے جانے کی تقریب کے دوران دیے۔

پیر کے روز روس نے شام میں حکومت کے عبوری عمل میں کسی بیرونی مداخلت کرنے پر اپنے اعتراض کا اعادہ کیا۔

روس کی وزارت ِخارجہ کے ایک بیان میں شام میں فوجی جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا، تاہم اُس نے متنبہ کیا کہ سیاسی اصلاحات کے بارے میں کیے جانے والا کوئی بھی فیصلہ خود شامیوں کو ہی کرنا چاہئیے۔

اِس ضمن میں روس کا مؤقف امریکہ سے متضاد ہے جو مسٹر اسد کے استعفے کا مطالبہ کرتا ہے اور ایک جمہوری حکومت کے حصول کے لیے عبوری بندوبست پر زور دیتا آیا ہے۔

باغیوں اور حکومتی افواج کے درمیان اب تک ہونے والی لڑائی میں 40000سے زائد ہلاکتیں واقع ہو چکی ہیں، جب کہ ایسی صورتِ حال سے چھٹکارے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔

پیر کے روز انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے ایک وڈیو سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی طرف سے حمص کے قریب مزید فضائی حملے جب کہ دیار الزور میں دھماکے ہوئے ہیں۔

سرگرم کارکنوں نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومتی جنگی جہازوں نےدمش کے درایاکے مضافات میں حکومتی جنگی طیاروں کی بمباری کی خبر دی ہے جب کہ دارالحکومت کے قرب و جوار میں باغیوں اور حکومتی فوج کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔

اِس بات کےبھی شواہد ملے ہیں کہ باغیوں نے مزید علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔