شام:کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا بڑھتا ہوا خطرہ

فائل فوٹو

مغربی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ شام کے کیمیائی ہتھیار چار سے آٹھ مقامات پر تیار کیے جاتے ہیں اور پھر انہیں پورے ملک میں درجنوں مقامات پر محفوظ کر لیا جاتا ہے۔
انٹیلی جینس کے ماہرین کا خیال ہے کہ شام کے پاس دنیا میں کیمیائی ہتھیاروں کا ایک سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شام کی حکومت ان ہتھیاروں کو باغیوں کے خلاف استعمال کر سکتی ہے، اور کیا یہ ہتھیار باغیوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں، اور وہ انہیں شام کی مسلح افواج کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں؟ ۔


مغربی ملکوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے میں مسٹڑڈ گیس، اور زیادہ جدید سارن بلکہ دنیا کی سب سےزیادہ زہریلی اعصابی گیس وی ایکس تک موجود ہے۔

تا ہم، کیمیائی ہتھیاروں کے ماہر لیونارڈ سپیکٹر کہتے ہیں کہ شام نے پہلے کبھی اس قسم کے ہتھیار استعمال نہیں کیے۔’’لیکن اس نے ایسے ہتھیار حاصل ضرور کیے ہیں۔ یہ پروگرام 1980 سے بلکہ شاید اس سے بھی پہلے سے چل رہا ہے۔ اور اسے آہستہ آہستہ آگے بڑھایا گیا ہے ۔ شروع میں اس کے پاس پہلی عالمی جنگ کے دور کے کیمیائی ہتھیار تھے، اور اب بعض بہت جدید ہتھیار شامل ہو گئے ہیں۔ ابتدا میں انہیں سوویت یونین سے مدد ملی تھی، اور بعد میں شاید شمالی کوریا اور ایران نے ان کی مدد کی ہے۔‘‘

جارج میسن یونیورسٹی کے ایک ماہر گریگوری کوبلنز کہتے ہیں کہ شامیوں نے کیمیائی ہتھیار ایک مقصد کے تحت جمع کیے ہیں۔’’ شامیوں نے اپنا کیمیائی ہتھیاروں کا پروگرام اس لیے شروع کیا تھا کیوں کہ اسرائیلیوں کے مقابلے میں ان کی روایتی فوجی طاقت کمزور تھی، اور اس لیے بھی کہ وہ اسرائیل کے نیوکلیئر پروگرام کا جواب دینا چاہتے تھے۔ یعنی یہ وہ ہتھیار تھے جو میدانِ جنگ میں، غیر ملکی دشمنوں کے خلاف استعمال کے لیے تیار کیے گئے تھے ۔ کیمیائی ہتھیاروں کا پروگرام اس قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں کیا گیا تھا جو آج کل شام میں موجود ہے۔‘‘

مغربی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ شام کے کیمیائی ہتھیار چار سے آٹھ مقامات پر تیار کیے جاتے ہیں اور پھر انہیں پورے ملک میں درجنوں مقامات پر محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اب تک وہ حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور محفوظ ہیں۔

لیکن یہ سوال باقی ہے کہ کیا شام کے صدر بشار الاسد باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کریں گے۔

ایک پرائیویٹ ریسرچ فرم آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہر گریگ تھیلمان کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ مسٹر اسد ان ہتھیاروں کو باغیوں کے خلاف استعمال کریں گے۔

’’کیمیائی ہتھیار بہت زہریلے ہوتےہیں اور ان کا استعمال بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔ ان سے نہ صرف مخصوص علاقے میں رہنے والی سویلین آبادی کے لیے ہی خطرہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ ان فوجیوں پر ہی برس پڑتے ہیں جو انہیں استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا استعمال کے لیے یہ کوئی اچھے ہتھیار نہیں ہیں۔ یہ ایسا ہتھیار ہے جس کی اہمیت یہ ہے کہ اسے دوسروں کو حملہ کرنے سے باز رکھنے کے لیے تو استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ جنگ میں استعمال کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔‘‘

تا ہم، شام کی حکومت کے مخالفین نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس نے باغیوں کو ہلاک کرنے کے لیے زہریلی گیس استعمال کی ہے۔ حکومت نے اس الزام سے انکار کیا ہے۔

روس کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان الیگزینڈر لیکاشویچ نے جمعرات کے روز ، گیس کے استعمال کی رپورٹوں کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ان اطلاعات کا مقصد یہ ہے کہ شام کے جھگڑے میں غیر ملکی مسلح مداخلت کا جواز پیدا کیا جائے۔

لیکن سابق آرمی انٹیلی جنس افسر جوزف ہالیڈے کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں مسٹر اسد اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیمیکل ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔’’اسد حکومت کا خاتمہ جتنا نزدیک آرہا ہے، اتنا ہی کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ بڑھ رہا ہے ۔ اب تک ہم یہ سمجھتے رہے ہیں کہ بشار الاسد کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی جرأت نہیں کریں گے کیوں کہ ایسا کرنا خود کشی کے مترادف ہو گا۔ لیکن مستقبل میں شاید کوئی ایسا وقت آ جائے جب باغیوں کی فتوحات میں مسلسل اضافہ ہوتا جائے، اور بشار یہ طے کریں کہ اب انہیں مرنا تو ہے ہی، اس لیے کیوں نہ کیمیائی ہتھیار استعمال کر لیے جائیں۔‘‘

صدر براک اوباما نے شام کو انتباہ کیا ہے کہ اگر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے تو اس کے خطرناک نتائج ہوں گے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ کچھ کیمیائی ہتھیار باغیوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں، خاص طور سے ان اسلامی انتہا پسندوں کے جو مسٹر اسد کا تختہ الٹنے کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔

لیکن تجزیہ کار ہالیڈے کہتےہیں کہ اگر زیادہ جدید کیمیائی ہتھیار باغیوں کے ہاتھ لگ جائیں تو بھی، ان کے لیے انہیں استعمال کرنا مشکل ہو گا۔’’شاید کچھ نچلے درجے کے کیمیکل جیسے مسٹرڈ گیس، کلورین، جنہیں کار بم میں یا ایسی ہی کسی شکل میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن زیادہ جدید کیمیائی ہتھیار، جیسے سارن یا وی ایکس کے لیے خاص قسم کے انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے، اور میں کہہ نہیں سکتا کہ باغیوں کے پاس اس قسم کی صلاحیت موجود ہے یا نہیں۔‘‘

بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر امن بحال ہو جائے توبھی شام کے کیمیائی ہتھیاروں کا مسئلہ ختم نہیں ہو گا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس مسئلے سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شامی حکومت ان مہلک ہتھیاروں کو بین الاقوامی نگرانی میں ٹھکانے لگا دے۔