شام میں جنگ بندی موثر، بعض مقامات پر جھڑپیں

شامی حزبِ اختلاف نے کہا ہے کہ معاہدے کے رو سے جنگ بندی پورے شام پر لاگو ہوتی ہے اور اگر شامی حکومت نے اس کی خلاف ورزی کی تو باغی اس کاجواب دینے میں آزاد ہوں گے۔

شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت اور باغیوں کے درمیان طے پانے والی جنگ بندی جمعے کو پہلے روز بڑی حد تک موثر رہی البتہ بعض مقامات پر فریقین کے درمیان جھڑپیں ہونے کی اطلاعات ہیں۔

برطانیہ میں قائم تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق شامی فضائیہ کے طیاروں نے جمعے کو شمالی صوبے حما میں باغیوں کےٹھکانوں پر 16 فضائی حملے کیے۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ جھڑپوں کا آغاز کس کی طرف سے ہوا۔

آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمن نے فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ علاقے میں جھڑپیں جمعے کو سارا دن جاری رہیں اور سرکاری فوج کے طیارے اور ہیلی کاپٹر باغی اتحاد 'فتح الشام فرنٹ' اور دیگر تنظیموں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ جھڑپیں جمعے کو موثر ہونے والی جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ ان کا آغاز کس فریق نے کیا ہے۔

ماضی میں 'النصرہ فرنٹ' کے نام سے معروف 'فتح الشام فرنٹ' بین الاقوامی شدت پسند تنظیم القاعدہ کی اتحادی رہی ہے۔

شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان ترکی اور روس کی کوششوں سے طے پانے والی جنگ بندی کا اطلاق داعش اور شام میں سرگرم دیگر شدت پسند تنظیموں پر نہیں ہوتا۔

شامی حکومت کا موقف ہے کہ القاعدہ سے تعلق کے باعث 'فتح الشام' بھی جنگ بندی سے مستثنیٰ ہے اور اس کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔

تاہم شامی حزبِ اختلاف نے کہا ہے کہ معاہدے کے رو سے جنگ بندی پورے شام پر لاگو ہوتی ہے اور اگر شامی حکومت نے اس کی خلاف ورزی کی تو باغی اس کاجواب دینے میں آزاد ہوں گے۔

باغیوں کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان جمعرات کو شامی حکومت نے کیا تھا۔ معاہدہ شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے اتحادی، روس اور باغیوں کے حمایتی، ترکی کی کوششوں سے طے پایا ہے جنہوں نے کہا ہے کہ وہ فریقین کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد کے ضمانت دیں گے۔

شام میں جنگ بندی کے لیے روس اور ترکی کے درمیان گزشتہ چند ہفتوں سے سفارت کاری اور مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا۔

اس سے قبل بھی رواں ماہ دونوں ملکوں کی کوششوں سے باغیوں اور شامی حکومت کے درمیان باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقے حلب میں جنگ بندی اور وہاں پھنسے شہریوں اور جنگجووں کے انخلا کا معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد شہر مکمل طور پر اسد حکومت کے کنٹرول میں آگیا ہے۔