اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کا کہنا تھا کہ شام کے عوام مذاکرات کے نتیجے میں ’’وحشت ناک بحران‘‘ سے نکلنے کی راہ کے منتظر تھے۔ لیکن ان کے بقول ’’بات چیت کے ان دو ادوار میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی‘‘
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی لخدار براہیمی نے شام کی حکومت اور حزب مخالف کے درمیان مذاکرات کا تازہ ترین دور بے نتیجہ ختم ہونے پر شام کے عوام سے معذرت کی ہے۔
براہیمی نے ہفتہ کو حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی جس کا مقصد تعطل کے شکار امن مذاکرات کی بحالی تھا لیکن یہ ملاقات صرف 27 منٹ تک ہی جاری رہ سکی۔
براہیمی کا کہنا تھا کہ شام کے عوام مذاکرات کے نتیجے میں ’’وحشت ناک بحران‘‘ سے نکلنے کی راہ کے منتظر تھے۔ لیکن ان کے بقول ’’بات چیت کے ان دو ادوار میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی‘‘۔
اقوام متحدہ کے ایلچی کی طرف سے تجویز کردہ سمجھوتے پر شام کی حکومت کے انکار کے بعد ان مذاکرات کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے۔
براہیمی کا کہنا تھا کہ دونوں وفود بات چیت کے اگلے دور کے ایجنڈے پر متفق ہیں لیکن پیچیدہ معاملات کے حل پر دونوں میں اختلافات بدستور موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایجنڈے میں فریقوں کے نزدیک اہم سمجھے جانے والے امور شامل ہیں۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ بات چیت کا تیسرا دور کب ہوگا۔
شام کی حکومت بات چیت میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی پر توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہے۔ دمشق باغیوں کے لیے ’’دہشت گرد‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ حزب مخالف شام میں عبوری حکومت کی تشکیل پر اصرار کر رہی ہے۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد عبوری حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے اور ان کے بقول صدر قوم کے حقیقی رہنما ہونے کا جائز حق کھو چکے ہیں۔
شام کی حکومت کے نمائندے حزب مخالف کے اس موقف کو مسترد کر چکے ہیں۔
براہیمی نے ہفتہ کو حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی جس کا مقصد تعطل کے شکار امن مذاکرات کی بحالی تھا لیکن یہ ملاقات صرف 27 منٹ تک ہی جاری رہ سکی۔
براہیمی کا کہنا تھا کہ شام کے عوام مذاکرات کے نتیجے میں ’’وحشت ناک بحران‘‘ سے نکلنے کی راہ کے منتظر تھے۔ لیکن ان کے بقول ’’بات چیت کے ان دو ادوار میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی‘‘۔
اقوام متحدہ کے ایلچی کی طرف سے تجویز کردہ سمجھوتے پر شام کی حکومت کے انکار کے بعد ان مذاکرات کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے۔
براہیمی کا کہنا تھا کہ دونوں وفود بات چیت کے اگلے دور کے ایجنڈے پر متفق ہیں لیکن پیچیدہ معاملات کے حل پر دونوں میں اختلافات بدستور موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایجنڈے میں فریقوں کے نزدیک اہم سمجھے جانے والے امور شامل ہیں۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ بات چیت کا تیسرا دور کب ہوگا۔
شام کی حکومت بات چیت میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی پر توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہے۔ دمشق باغیوں کے لیے ’’دہشت گرد‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ حزب مخالف شام میں عبوری حکومت کی تشکیل پر اصرار کر رہی ہے۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد عبوری حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے اور ان کے بقول صدر قوم کے حقیقی رہنما ہونے کا جائز حق کھو چکے ہیں۔
شام کی حکومت کے نمائندے حزب مخالف کے اس موقف کو مسترد کر چکے ہیں۔