امریکہ کی ریاست جنوبی کیرولائنا میں ایک تاریخی چرچ پر حملہ کرنے والے ڈیلن اسٹارم روف کے ایک سابق دوست نے کہا ہے کہ وہ کھلم کھلا نسل پرست بن چکا تھا۔
جوئی میک کا ڈیلن روف سے چند ہفتے قبل دوبارہ رابطہ ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ شراب پینے کے بعد نشے میں روف نے شکایت شروع کر دی کہ ’’سیاہ فام لوگ دنیا پر قبضہ کر رہے ہیں‘‘ اور یہ کہ کسی کو ’’سفید فام نسل کے لیے اس کے بارے میں کچھ کرنا ہو گا۔‘‘
اکیس سالہ روف پر بدھ کی شام ’ایمانوئل افریقن میتھوڈسٹ چرچ' میں بائبل کے مطالعے کے دوران نو افراد کو گولی مار کر قتل کرنے کا الزام ہے۔ پولیس نے اس ملزم کو جمعرات کو حراست میں لیا تھا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) کے مطابق واقعہ میں 21 سالہ سفید فارم نوجوان ڈیلن اسٹارم روف ملوث تھا جو جنوبی کیرولائنا کے علاقے لیگزنکٹن کا رہائشی ہے۔
پولیس کے مطابق نوجوان کو جمعرات کی صبح شمالی کیرولائنا کے قصبے شیلبی سے حراست میں لیا گیا ہے۔ مذکورہ مقام حملے کا نشانہ بننے والے گرجا گھر سے چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔
امریکی محکمۂ انصاف نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا ملزم نے گرجا گھر پر حملہ "نفرت" کی بنیاد پر کیا۔
حملے کا نشانہ بننے والا گرجا گھر 'ایمانوئل افریقن میتھوڈسٹ چرچ' جنوبی کیرولائنا کے شہر چارلسٹن میں واقع ہے اور اس کا شمار جنوبی امریکہ میں سیاہ فام باشندوں کے قدیم ترین اور معروف گرجا گھروں میں ہوتا ہے۔
چارلسٹن کے پولیس سربراہ گریگوری مولن کے مطابق گرجا گھر میں بدھ کی شب ہفتہ وار دعائیہ تقریب جاری تھی جب ایک سفید فام شخص نے گرجا کے مرکزی ہال میں فائرنگ کردی۔
پولیس چیف کے مطابق فائرنگ کے نتیجے میں آٹھ افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے جب کہ ایک شخص نے اسپتال پہنچنے کے بعد دم توڑا۔ مرنے والوں میں چھ خواتین اور تین مرد شامل ہیں۔
فائرنگ کے نتیجے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئےہیں جنہیں شہر کے اسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے۔مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق واقعے میں گرجا گھر کے پادری کلیمنٹا پنکنے بھی ہلاک ہوگئے ہیں جو ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما اور جنوبی کیرولائنا ریاست کی سینیٹ کے رکن تھے۔
پولیس چیف مولن نے صحافیوں کو بتایا کہ ملزم گرجا گھر پہنچنے کے بعد ایک گھنٹے تک دعائیہ تقریب میں شریک افراد کے ساتھ بیٹھا رہا جس کے بعد اس نے خود کار ہتھیار نکال کر فائرنگ کی۔
پولیس چیف کےمطابق ایف بی آئی سمیت کئی وفاقی تحقیقاتی ادارے، محکمۂ انصاف اور امریکی اٹارنی جنرل کا دفتر بھی تحقیقات میں مقامی پولیس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔
صدر براک اوباما نے واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اور ان کی اہلیہ مشیل اوباما فائرنگ کا نشانہ بننے والے گرجا گھر کے پادری سمیت کئی ارکان سے واقف تھے اور انہیں اس واقعے سے سخت صدمہ پہنچا ہے۔
صدر نے فائرنگ کے واقعے کو "بے حسی کی مثال" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی قوم کو ملک میں آتشی اسلحے کے بڑھتے ہوئے استعمال کو روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے۔