|
ایک حالیہ سروے سے ظاہر ہو ا ہے کہ بنگلہ دیش میں طلبہ کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی اقتدار سے علیحدگی اور ملک سے فرار کے چار ماہ بعد لوگوں کی اکثریت، عبوری حکومت کے اصلاحاتی پروگرام کی بھرپور حمایت کے باوجود یہ چاہتی ہے کہ ایک سال کے اندر نئے انتخابات کرائے جائیں۔
وائس آف امریکہ کی بنگلہ سروس کے زیر اہتمام ایک بنگلہ دیشی ریسرچ فرم کے ذریعے اکتوبر کے آخر میں کرائے گئے سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ 65.9 فی صد جواب دہندگان حکومت کے اصلاحاتی پروگرام کے حمامی ہیں اور 61 فی صد سے زیادہ افراد 12 ماہ کے اندر نئے انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں۔
سروے کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بنگلہ دیشیوں کی اکثریت اصلاحات اور انتخابات کے یکساں طور پر حامی ہے اور وہ انتخابات کے نتیجے میں اس طرح کی جمہوریت چاہتے ہیں جس میں ادارے اور نگرانی کا عمل مضبوط ہو۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء چھ سال بعد منظر عام پر آ گئیںدارالحکومت ڈھاکہ میں مقیم صحافی اور سیاسی مبصر ظل الرحمان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ لوگ یقینی طور پر انتخابات اور اصلاحات ایک ساتھ چاہتے ہیں۔ یہ حکومت اپنی توجہ الیکشن سے متعلق اصلاحات پر مرکوز کر کے اچھا کر رہی ہے۔
اگست میں شیخ حسینہ کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد یہ رائے عامہ کا ایک بڑا سروے ہے جس میں 1000 لوگوں سے سوال کیے گئے ۔ وائس آف امریکہ کی بنگلہ سروس نے یہ سروے "آرگ کوئسٹ ریسرچ لمیٹڈ" ادارے کے ذریعے کروایا جس میں غلطی کا امکان تین فی پلس یا مائنس ہو سکتا ہے۔
یہ سروے ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت إصلاحات کے ایک ایجنڈے پر پرجوش انداز میں کام کر رہی ہے۔ ان اصلاحات کا مقصد الیکشن کمیشن، پولیس، عدلیہ اور آئین سمیت ایسی تبدیلیاں متعارف کرانا ہے جس سے حکمرانوں کی آمریت کا راستہ روکا جا سکے۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش: 'عبوری حکومت شیخ حسینہ کی بھارت سے واپسی کی کوشش کرے گی'سروے کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جواب دہندگان کی تقریباً 60 فی صد تعداد چاہتی ہے کہ حکومت انتخابات سے پہلے تمام ضروری اصلاحات مکمل کرے، جب کہ لگ بھگ 32 فی صد کا کہنا تھا کہ حکومت کو صرف انتخابی اصلاحات پر توجہ دینی چاہیے۔
60 فی صد سے زیادہ جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ وہ ایک سال کے اندر انتخابات کرانے کے حامی ہیں۔ جب کہ 8 فی صد عبوری حکومت کو 18 ماہ تک کا وقت دینے کے لیے آمادہ دکھائی دیے۔
ایمہرسٹ کالج میں شعبہ بشریات کے پروفیسر نصرت چوہدری نے سروے پر اپنے تبصرے میں کہا کہ ملک کے پچھلے تین انتخابات پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ اس لیے نئے انتخابات کی خواہش حیران کن نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب لوگ جمہوریت کے بارے میں سوچتے ہیں تو جو چیز سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ انتخابات ہیں، کیونکہ لوگ استحکام چاہتے ہیں۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش میں ہندو رہنما کی گرفتاری پر بھارت میں ردِ عمل؛'تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے'عبوری حکومت کے لیے ایک سال کے اندر انتخابات کا مطالبہ اور طویل مدتی اصلاحات کی ضرورت کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک نازک اور مشکل عمل ہے۔ کیونکہ ملک کی سیاسی جماعتیں بھی مناسب وقت کے اندر انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
تاہم حکومت انتخابات کے لیے کسی ٹائم لائن کی پابند نہیں ہے۔ الجزیرہ کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے کہا تھا کہ ان کی حکومت کے پاس انتخابات سے قبل اصلاحات کرنے کا مینڈیٹ موجود ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ طلبہ کی پوری تحریک ایک نیا بنگلہ دیش بنانے کے لیے تھی۔ صرف انتخابات کرانے سے نیا بنگلہ دیش نہیں بنے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
چار ماہ گزر جانے کے بعد عبوری حکومت کی مقبولیت برقرار ہے۔ تقریباً 58.4 فی صد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ عبوری حکومت شیخ حسینہ کی انتظامیہ سے بہتر کام کر رہی ہے۔ جب کہ 20 فی صد رائے دہندگان نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔
نصرت چوہدری کہتے ہیں کہ سروے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش سیاسی اعتبار سے ایک گہری تقسیم میں بٹا ہوا ملک ہے، جہاں زیادہ تر لوگ بی این پی یا شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کے حامی ہیں۔ جواب دہندگان کی جانب سے حمایت یا تنقید کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
(وائس آف امریکہ بنگلہ سروس)