سنوڈن کے انکشافات کے دو برس بعد بھی ’نگرانی بمقابلہ رازداری‘ پر بحث جاری

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے شریف السعید علی نے کہا کہ حکومتوں کو بڑے پیمانے پر نگرانی کے جواز پر بحث میں اپنی شکست مان لینی چاہیئے۔

اس بات کو دو سال ہونے کو ہیں جب امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن نے امریکہ کی جاسوسی اور نگرانی کے پروگراموں کے بارے میں سینکڑوں دستاویزات چرا کر میڈیا کو فراہم کی تھیں۔ اس کا یہ اقدام دنیا بھر میں شہ سرخیوں کا موضوع اور حکومتوں کے اپنے لوگوں کی نگرانی کے طریقوں میں تبدیلی لانے کا باعث بنا۔

امریکہ میں اس انکشاف کا انجام کانگریس کی جانب سے اس ماہ ’یوایس اے فریڈم ایکٹ‘ کی منظوری کی صورت میں ہوا۔ اس قانون نے حکومتی ایجینسیوں کی جانب سے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ ریکارڈ کی جاسوسی کو محدود اور لاکھوں امریکیوں کا بڑی مقدار میں ٹیلی فون ڈیٹا اکٹھا کرنے کو ختم کیا ہے۔

بدھ کو ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تقریب میں روس سے وڈیو لنک کے ذریعے بات کرتے ہوئے سنوڈن نے کہا کہ ’یو ایس اے فریڈم ایکٹ‘ نے ان کے اقدام کو صحیح ثابت کیا ہے۔ سنوڈن 2013 میں چوری شدہ سکیورٹی دستاویزات منظرِ عام پر لانے کے بعد روس فرار ہو گئے تھے۔

"1970 کی دہائی میں جب امریکی انٹیلی جنس نظام میں آخری مرتبہ اصلاحات کی گئیں، اس وقت سے اب تک امریکہ کی چالیس سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم نے دیکھا ہے کہ حقائق خوف سے زیادہ قائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ ’’حالیہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم نے دیکھا ہے کہ حکومتی دعوؤں کے باوجود عوام نے حتمی فیصلہ کیا، اور یہ ایک انقلابی تبدیلی ہے جس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیئے، جس کی قدر کرنی چاہیئے اور جسے ہمیں مزید وسعت دینی چاہیئے۔‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے شریف السعید علی نے کہا کہ حکومتوں کو بڑے پیمانے پر نگرانی کے جواز پر بحث میں اپنی شکست مان لینی چاہیئے۔

’’ان پروگراموں کے خلاف بہت منفی رد عمل سامنے آیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے اور عدالتوں نے ان پروگراموں کو غیر قانونی، انسانی حقوق کے اصولوں کے منافی، اور بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کے منافی قرار دیا ہے۔ اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے رازداری کے تحفظ کے لیے نئے اقدامات کا نفاذ کیا ہے۔‘‘

مگر نگرانی کے پروگراموں کے انکشاف سے پیدا ہونے والے بحران نے بھاری قیمت وصول کی ہے۔ یہ بات برطانیہ میں قائم پالیسیوں کے تجزیے پیش کرنے والی ایک تنظیم سے وابستہ رابن سمکوکس نے کہی۔

سمکوکس نے کہا کہ حکومتی کنٹریکٹر اور ملازمین کے پاس شکایات کے اندارج، نظام میں کمزوریوں کی نشاندہی اور تبدیلی کے لیے طریقہ کار متعین ہے۔ یہ طریقہ ان شکایات کو ’گارڈین‘ یا ’واشنگٹن پوسٹ‘ اخبار کے صفحات پر شائع کرنا نہیں ہے۔ ’’سنوڈن نے بہت سے راز افشا کر دیے جس سے ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ملکی سلامتی کی حفاظت کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔‘‘

دریں اثنا، برطانیہ میں ایمرجنسی نگرانی کے قانون کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔ اس قانون کو پارلیمان میں گزشتہ سال تیزی سے منظور کرا لیا گیا تھا۔ یہ قانون ایجنسیوں کو لوگوں کا ٹیلی فون اور انٹرنیٹ ڈیٹا اکٹھا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا جرم اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے بہت اہم ہے۔

ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کے دو سال بعد بھی شہری آزادیوں اور نگرانی کے درمیان جنگ جاری ہے۔