پاکستان کی سپریم کورٹ نے توہینِ مذہب کے مقدمے میں آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل مسترد کر دی ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے منگل کو اسلام آباد میں نظرِ ثانی کی اپیل کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل بھی شامل تھے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے خلاف مقدمے کے مدعی قاری محمد سالم نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی۔
اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت نے اُن حقائق کو مدِ نظر نہیں رکھا جن کی بنیاد پر لاہور ہائی کورٹ نے توہینِ رسالت کے مقدمے میں آسیہ بی بی کی سزائے موت کو برقرار رکھا تھا۔
سماعت کے بعد اپنے مختصر فیصلے میں عدالت نے آسیہ بی بی کی بریت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نظرِ ثانی کی اپیل مسترد کردی۔
بینچ نے دورانِ سماعت درخواست گزار کے وکیل سے کہا کہ آپ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک بھی غلطی کی نشان دہی نہیں کرسکے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 31 اکتوبر کو توہینِ مذہب کے مقدمے میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ سنایا تھا۔
منگل کو جب سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی سماعت شروع ہوئی تو مدعی قاری محمد سالم کے وکیل نے عدالت کے سامنے موقف اخیتار کیا کہ یہ توہین مذہب کا معاملہ ہے اس لیے اس معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔
اس پر عدالت نے کہا کہ ابھی اس مقدمے میں مذہب کا معاملہ سامنے نہیں آیا ہے اور آپ اس مقدمے کی شہادتیں پڑھیں اور اس کے بعد عدالت کا آگاہ کریں کہ فیصلے میں کہاں غلطی ہوئی ہے۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ لارجر بینچ بنانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔
’جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف مقدمہ درج کروا دیتے‘
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا کہ وہ 31 اکتوبر کو آسیہ بی بی کی بریت کا فیصلہ پڑھیں۔ جب وہ فیصلہ پڑھ رہے تھے تو اس دوران عدالت کی طرف سے ان سے استفسار کیا گیا ہے کہ وہ بتائیں اس میں کیا غلطی ہے جس پر وکیل غلام مصطفیٰ چودھری نے نفی میں جواب دیا۔
چیف جسٹس نے دوارن سماعت اس مقدمے سے متعلق سرکاری اور دیگر گوہواں کی اہلیت اور معیار کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ حلف اٹھانے کے باوجود تمام گواہوں کے بیان میں تضاد ہے۔ بینچ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مقدمے کے مدعی قاری محمد سالم کی اہلیت کے بارے میں بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ وہ کیسے پیش امام ہیں جو اپنی درخواست خود نہیں لکھ سکتے۔
مقدمے کے مدعی قاری محمد سالم نے آسیہ بی بی کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے میں پولیس کو دی گئی درخواست کسی اور سے لکھوائی تھی۔
منگل کو دوران سماعت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر یہ توہین مذہب کا معاملہ نا ہوتا اور کوئی عام مقدمہ ہوتا تو جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف فوجداری قانون کے تحت مقدمہ درج کروا دیتے۔
سپریم کورٹ نے مدعی قاری محمد سالم کے وکیل غلام مصطفیٰ چودھری سے استفسار کیا کہ یہ بتائیے جھوٹے گواہان کے خلاف کیا کرنا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ ایسے مقدمے میں جس میں سزا موت ہوئی ہو اس میں جھوٹی گواہی دینے والے کے خلاف سمری ٹرائل کے بعد عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ دیا تھا۔
عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھا تھا کہ آسیہ بی بی پر عائد الزامات سے متعلق گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے اور قانون کے مطابق جو دعویٰ کرتا ہے، ثابت کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام کارروائی میں ملزم کے ارتکابِ جرم کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ثابت کرے۔ جس جگہ بھی استغاثہ کی کہانی میں کوئی جھول ہوتا ہے اس کا فائدہ ملزم کو دیا جانا چاہیے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے خلاف مذہبی جماعت تحریکِ لبیک نے ملک گیر احتجاج کیا تھا۔
بعد ازاں حکومت نے تحریکِ لبیک کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈاؤن کیا تھا اور جماعت کے سربراہ خادم حسین رضوی سمیت اہم رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کر کے انھیں گرفتار کرلیا تھا۔ گرفتار رہنماؤں اور کارکنوں میں سے بیشتر تاحال حکومت کی حراست میں ہیں۔
سکیورٹی کے سخت انتظامات
منگل کو نظرِ ثانی کی اپیل کی سماعت کے دوران اسلام آباد میں سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے اور ریڈ زون میں واقع سپریم کورٹ سمیت حساس عمارتوں پر رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔
تحریکِ لبیک کی مرکزی قیادت کی حراست کے باوجود اسلام آباد پولیس نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ جماعت کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت تاحال متحرک ہے اور ان کی طرف سے نظرِ ثانی کی اپیل کے فیصلے پر احتجاج کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔