سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے کیسز کی سماعت سے متعلق فیصلہ معطل کرتے ہوئے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائلز کی اجازت دے دی ہے۔
سپریم کورٹ کے چھ رُکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنایا جو پانچ، ایک کی اکثریت سے جاری کیا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے چھ رُکنی بینچ میں سردار طارق مسعود، جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا تھا جب رواں برس نو مئی کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد مشتعل مظاہرین نے فوجی تنصیبات میں جلاؤ گھیراؤ کیا تھا۔
اس وقت کی حکومت نے فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے ٹرائلز فوجی عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس حوالے سے 103 افراد کو فوج کی تحویل میں دیا گیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے اکتوبر میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائلز کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ مقدمات سول عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
پاکستان کی نگراں حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز روکنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔
بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگراں حکومت نے بھی انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
چھ رُکنی بینچ کے فیصلے میں مزید کیا ہے؟
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں زیرِ حراست ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں جاری رہے گا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالتیں ٹرائل مکمل ہونے پر حتمی فیصلہ نہیں سنائیں گی۔
سماعت کے دوران درخواست گزار جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے بینچ میں شامل جسٹس سردار طارق مسعود پر اعتراض کیا، تاہم یہ مسترد کر دیا گیا۔
دورانِ سماعت جسٹس سردار طارق کھوسہ نے منگل کو ڈیرہ اسماعیل خان میں 23 فوجی جوانوں کی ہلاکت کا بھی حوالہ دیا۔
اُنہوں نے ریمارکس دیے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں 23 بچوں کی جان گئی، ان پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کیسے ہو گا؟
وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ ہر سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو رہا، صرف ان سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ کچھ ملزمان پر فردِ جرم عائد ہو گئی تھی کچھ پر ہونا تھی، بہت سے ملزمان شاید بری ہو جائیں۔ جنہیں سزا ہوئی وہ بھی تین سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔
اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کو کیسے معلوم ہے کہ سزا تین سال سے کم ہ گی؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کم سزا میں ملزمان کی حراست کا دورانیہ بھی سزا کا حصہ ہو گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اتنی جلدی کیا ہے اٹارنی جنرل صاحب، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جلدی یہ ہے کہ غیر ملکی دہشت گردوں کے ٹرائل بھی نہیں ہو پا رہے۔
پانچ رُکنی بینچ کے فیصلے میں کیا تھا؟
23 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے سویلینز کے مقدمات سے متعلق آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نو مئی کے واقعات میں گرفتار تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان، ماہرِ قانون بیرسٹر اعتزاز احسن، کرامت علی، جنید رزاق، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، حفیظ اللہ نیازی، لیفٹننٹ کرنل ریٹائرڈ انعام رحیم اور نعیم اللہ قریشی نے سویلین افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔