سپریم کورٹ نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آئی' سے اسلام آباد میں اس کے صدر دفتر کے سامنے بند سڑک کھولنے کی تاریخ طلب کرلی ہے۔
سپریم کورٹ میں تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کو کی۔
جب سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا آئی ایس آئی کو روڈ کھولنے کے لیے چار ہفتوں کا وقت دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے 'آئی ایس آئی' سے سڑک کھولنے کی تاریخ طلب کرلی۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ہدایات اور پلان لے کر آئیں کہ ماسٹر پلان کا روڈ کیوں بند کیا گیا؟ یہ بھی بتائیں کہ کب روڈ کھولیں گے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ پورے ملک میں تجاوزات ہٹانے کا حکم دے رکھا ہے۔ 'آئی ایس آئی' اس سے مبرا نہیں۔ بلائیں 'آئی ایس آئی' کے سربراہ کو۔ عدالتی حکم کے باوجود سڑک کیوں نہیں کھولی؟ یہ سڑک آپ کو کھولنی ہے۔ سڑک بند ہونے سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ہم روڈ کھولیں گے مگر سکیورٹی ایشوز ہیں۔ روڈ بند کی ہے مگر متبادل روڈ بھی بنا کر دیا ہے۔ 'سی ڈی اے' نے تحریری طور پر روڈ الاٹ کر دیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تجاوزات ختم کرنے کا حکم تین ماہ قبل دیا تھا۔ یہ علاقہ کھولیں۔ میریٹ، سیرینا اور دیگر اہم عمارتوں کے سامنے سے تجاوزات بھی ختم کرائی ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد میں بنیادی طور پر درخواست فیض آباد میں تجاوزات سے متعلق تھی۔ ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر حکم جاری کیا ہے۔ انہوں نے سکیورٹی خدشات دور کرنے تک مہلت کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہدایات لے کر بتائیں کہ کب راستہ کھولیں گے؟ ہائی کورٹ کے پاس ازخود نوٹس کا اختیار نہیں، ان کا حکم معطل کرتے ہیں۔
چیف جسٹس کے ریمارکس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہزبردستی بیانِ حلفی تحریر کرکے دیں۔ بغیر ہدایات کے میں کیسے بیان حلفی دوں؟
بینچ کے رکن جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت تجاوزات ختم کرنے کا حکم پہلے دے چکی ہے۔ آپ ہدایات لیں اور عدالت کو بتائیں۔ جس کے بعد کیس کی سماعت جمعے تک ملتوی کردی گئی۔
قبل ازیں بدھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسی کیس کی سماعت کے دوران آب پارہ سڑک کھولنے کی تحریری یقین دہانی نہ کرانے پر 'آئی ایس آئی' کے بریگیڈیئر فلک ناز سمیت چار افسران کو شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا تھا۔
تاہم 'آئی ایس آئی' کے نمائندے کے پیش ہونے کے بعد عدالت میں شوکاز نوٹس واپس لے لیا تھا۔
ہائی کورٹ نے 'آئی ایس آئی' کو روڈ کھولنے کے لیے مہلت دیتے ہوئے ایجنسی کے تین افسران اور سیکریٹری دفاع کو پیر کو عدالت میں طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دورانِ سماعت ریمارکس دیے کہ ایک گملا بھی اگر ادھر سے ادھر رکھنا ہو تو آپ کے کمانڈنگ افسر کی اجازت کے بغیر نہیں رکھا جا سکتا۔
تاہم اب سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ معطل کردیا ہے۔
اسلام آباد کے علاقے آب پارہ میں خیابانِ سہروردی روڈ پر پاکستان کی خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آئی' کا صدر دفتر واقع ہے۔ اس روڈ کو آب پارہ روڈ بھی کہا جاتا ہے۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں اس شاہراہ کے دو کلومیٹر طویل حصے کو سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر بند کردیا گیا تھا اور اس حصے سے ٹریفک کو متبادل راستوں سے گزارا جاتا ہے۔
اسلام آباد میں ماضی میں دہشت گردی کے خدشے کے پیشِ نظر بہت سے اہم مقامات اور سڑکیں سیمنٹ کے بلاک رکھ کر مستقل یا جزوی طور پر بند کردیے گئے تھے۔
لیکن دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آنے کے باوجود بہت سی اہم شاہراہیں آج تک بند ہیں۔
اس بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں جاری مقدمے کے دوران عدالت کی ہدایت پر کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے میریٹ ہوٹل کے سامنے واقع شاہراہ سمیت کئی اہم سڑکیں اور مقامات کھلوائے ہیں لیکن اب بھی شہر کی بہت سی اہم سڑکیں بند ہیں۔