سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس میں فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیا نااہل شخص ڈیکلیریشن کے بعد بھی انتخابات لڑسکتا ہے؟ کیا عدالت فیصلے میں نااہلی کی مدت کا تعین بھی کرے؟ جب مدت کا تعین نہیں تو نااہلی تاحیات ہوتی ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس کی سماعت کی۔
بدھ کو جب سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف اخیتار کیا کہ کیا نااہل شخص پر صادق اور امین نہ ہونے کا ٹھپہ مرنے کے بعد بھی رہے گا؟ کیا بے ایمان قرار دیا گیا شخص کبھی کوئی بیانِ حلفی دے سکے گا؟
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جس نے جرم کیا ہوا تو اس کا ٹھپہ ساری عمر رہے گا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا اناہل شخص ضمنی یا آئندہ انتخابات لڑسکتا ہے۔ کیا نااہل شخص ڈیکلیریشن کے بعد بھی انتخابات لڑسکتا ہے؟
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ عدالت کو کیس ٹو کیس مدت کا تعین کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کیا عدالت فیصلے میں نااہلی کی مدت کا تعین بھی کرے؟ کیا آئندہ الیکشن کا معاملہ ریٹرننگ افسر پر چھوڑ دیا جائے؟
دورانِ سماعت جب جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا ڈیکلیریشن وقت کے ساتھ از خود ختم ہوسکتا ہے تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ڈیکلیریشن ازخود ختم نہیں ہوسکتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا اس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہوگی؟ تو جواباً اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں مدت کے تعین کے لیے ترمیم ضروری ہے۔ ڈیکلیریشن کا دوبارہ جائزہ لینے کا کوئی طریقۂ کار موجود نہیں۔ قانون سازی تک ڈیکلیریشن برقرار رہے گا۔ پارلیمنٹ کو اس معاملے کا جائزہ لینا ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ترمیم کے بغیر نااہلی تاحیات ہوگی؟ جب مدت کا تعین نہیں تو نااہلی تاحیات ہوتی ہے۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل کے آئندہ دورۂ یورپ کا بھی تذکرہ ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں اہم ترین مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ آپ کو نہیں جانے دیں گے۔ آپ کو چھٹی پر جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
بعد ازاں عدالت نے درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
کئی سابق ارکانِ اسمبلی نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کے لیے عدالتِ عظمیٰ میں درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں جس کی سماعت پانچ رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔
بینچ كے ارکان میں جسٹس عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں۔
درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنا پر نااہل کیا گیا۔