امریکی سپریم کورٹ کے دو بڑے فیصلے اور بائیڈن کا لڑائی جاری رکھنے کاعزم

امریکی سپریم کورٹ کے نو جسٹس واشنگٹن میں ایک گروپ پورٹریٹ کے دوران ۔ فائل فوٹو 

امریکی سپریم کورٹ نے جمعے کو فیصلہ سنایا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے لاکھوں امریکیوں کے لیے طالبعلموں کے قرض منسوخ یا کم کرنے کی کوشش میں اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے ۔اس فیصلے نے صدر جو بائیڈن کی جانب سے اعلان کیے گئے 400 ارب ڈالر کے منصوبے کو موثر طور پر منسوخ کر دیا ہے اور اب قرض داروں کو اس موسم گرما کےآخر تک متوقع طور پر اپنے قرضوں کی ادائیگی کرنا ہو گی ۔

صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں اس فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے ریپبلکنز پر الزام عائد کیا کہ وہ اس معاملے میں "کمال منافقت سے کام لے رہے ہیں۔ "

وائٹ ہاؤس میں اپنے ایک بیان میں صدر بائیڈن نے کہا، "میری انتظامیہ نے طالبعلموں کو قرضوں میں جو چھوٹ دی تھی وہ لاکھوں محنتی امریکیوں کی زندگی آسان بنا سکتی تھی جو صدی میں پہلی بار آنے والی وبا سے سنبھلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کی جانب سےطالبعلموں کو قرضوں میں چھوٹ کے ہمارے منصوبے کو ختم کرنا غلط ہے۔"

لیکن انہوں نے کہا کہ وہ امریکہ کے محنتی متوسط طبقے کے خاندانوں کو آسانی فراہم کرنے کے دیگر طریقوں کی تلاش ختم نہیں کریں۔صدرنے کہا، " میری انتطامیہ ہر امریکی کے لیے اعلیٰ تعلیم کا وعدہ پورا کرنے کے لیے کام کرتی رہے گی۔"

صدر بائیڈن وائٹ ہاوس کے روزویلٹ روم میں امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے طلباٗ کے قرضوں میں معافی کی منسوخی کے فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ 30 جون 2023. فوٹو، اے ایف پی

اس پروگرام کی کانگریس سے توثیق ضروری تھی، عدالت

عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ انتظامیہ کو اتنے مہنگے پروگرام کا فیصلہ کرتے ہوئے کانگریس کی توثیق درکار ہوتی ہے ۔اکثریت نے ان دلائل کو مسترد کر دیا کہ بائیڈن طالبعلموں کے قرض منسوخ یا کم کرنے کے اپنے جس اختیار کا دعویٰ کرتے ہیں وہ انہیں طالبعلموں کے قرض سے متعلق 2003 کے ہیروز ایکٹ کے طور پر معروف ایک دو جماعتی قانون نے دیا تھا۔

چیف جسٹس جان رابرٹس نے عدالت کے فیصلے میں لکھا کہ چھ ریاستوں نے اس دلیل کے ساتھ مقدمہ دائر کیا تھا کہ ہیروز ایکٹ، قرض کی منسوخی کے منصوبے کا اختیار نہیں دیتا جس سے ہم اتفاق کرتے ہیں ۔

جسٹس الینا کیگن نے ایک اختلافی نوٹ میں لکھا جس میں دو لبرل ججز بھی شامل تھے ، کہ عدالت کی اکثریت نے مقننہ اور ایگزیکٹیو برانچز کے مشترکہ فیصلے کو منسوخ کر دیا ہے جس سے 43 ملین امریکیوں کے قرضوں کی معافی ختم ہو گئی ہے ۔

صدر بائیڈن نے ’فیڈرل اسٹوڈنٹ لون‘ میں ان لوگوں کے لیے10 ہزار ڈالرز کو کمی کرنے کی تجویز پیش کی تھی جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ 25 ہزار ڈالر سے کم ہے یا ایسے گھرانے جو سالانہ ڈھائی لاکھ ڈالر سے کم کماتے ہیں۔ وہ کالج میں داخلےکے لیے وفاقی’ پیل گرانٹ‘PELL GRANT حاصل کرنے والوں کے لیےمزید 10 ہزار ڈالر کے قرضوں کو بھی منسوخ کرنا چاہتے تھے۔

اس فیصلےکے بعد قرض کی ادائیگیاں جو تین سال قبل کرونا وائرس کی وبا کے آغاز سے رُکی ہوئی تھیں، اس موسم گرما میں دوبارہ شروع ہو جائیں گی۔

طالبہ بیکا فاویلا ان چالیس ملین امریکی طلباٗ میں شامل ہیں،جنہیں اپنے تعلیمی قرضوں کی ماہانہ اقساط کی ادائیگی کوویڈ وبا کے دوران دی گئی عارضی رعایت کی وجہ سے تین سال کے وقفے کے بعد اب رواں موسم خزاں میں دوبارہ شروع کرنی پڑے گی۔ فوٹو اے پی

انتظامیہ نے کہا ہے کہ قرض کی معافی کے لیے 26 ملین لوگوں نے درخواست دی تھی اور 43 ملین لوگ درخواست دینے کے اہل ہوتے ۔اس معافی کے لیے حکومت کو 30 سال کے عرصے میں 400 ارب ڈالر درکارہوتے ۔

ججوں کے گرمیوں کی تعطیلات پر جانے سے پہلے آج عدالت کا آخری دن ہے۔امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کے حقوق پر اثر انداز ہونے والے کیسز کے بارے میں بھی اپنے فیصلے کا اعلان کر دیا ہے ۔

ہم جنس پرستوں کے حقوق سے متعلق کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

جمعے کے روز سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کے حقوق اور مذہبی حقوق کے تصادم پر بھی اپنا فیصلہ سنایا جس میں کولوراڈو کی ایک عیسائی گرافک آرٹسٹ درخواست گزار تھیں جو شادی کی ویب سائٹس ڈیزائن کرنا چاہتی ہیں لیکن انہیں ہم جنس جوڑوں کے لیے شادی کی ویب سائٹس بنانے پر اعتراض ہے۔

عدالت نے اس کیس میں یہ فیصلہ سنایا ہے کہ کولوراڈو کی عیسائی گرافک آرٹسٹ اپنی ویب سائٹ کے لئے ہم جنس جوڑوں کے ساتھ کام کرنےسے انکار کر سکتی ہیں۔

عدالت نے ڈیزائنر لوری اسمتھ کے لئے یہ فیصلہ کولو راڈو کے اس قانون کے باجود سنایا جس کے تحت کسی عوامی کاروبار کے لیے ضروری ہےکہ وہ تمام صارفین کو خدمات فراہم کرنے کے لیے کھلا ہو۔

ڈیزائنر، لوری اسمتھ

اسمتھ اور اس کے حامیوں نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ایک حکم مصوروں اور فوٹوگرافروں سے لے کر مصنفین اور موسیقاروں تک کو ایسا کام کرنے پر مجبور کرے گا جو ان کے عقائد کے خلاف ہو۔جب کہ ان کے مخالفین نے کہا تھا کہ ان کی جیت سے بہت سے کاروباروں کو امتیازی سلوک کرنے کا موقع ملے گا، جو سیاہ فام، یہودی یا مسلمان صارفین، نسلی یا بین المذاہب جوڑوں یا تارکین وطن کی خدمت کرنے سے انکار کر دیں گے۔

‘افرمیٹو ایکشن’

اس سے قبل امریکی سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک فیصلے کے تحت اعلیٰ امریکی تعلیمی اداروں میں نسلی تنوع کے اعتبار سے داخلے کے لیے جاری کیے گئے ‘افرمیٹو ایکشن’ کو مسترد کر دیا ہے ۔

اس کا مطلب ہے کہ جس پالیسی کے تحت امریکی یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے طلبہ کو نسلی بنیاد پر رعایت مل رہی تھی، وہ ختم کر دی گئی ہے اور اب اعلیٰ تعلیم کے امریکی اداروں کو اپنے طلبہ میں نسلی تنوع پیدا کرنے کے کچھ نئے طریقے ڈھونڈنے ہوں گے۔

'افرمیٹو ایکشن' وہ طریقۂ کار ہے جس کے ذریعے یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے درخواست دینے والے طلبہ کے درمیان نسل، رنگ اور قومیت کی بنا پرامتیاز کو روکا جاتا ہے اور کالجوں میں تنوع کے لیے نسلی بنیاد پر درخواستوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

اس کی موجودہ شکل کا استعمال پہلے پہل صدر کینیڈی کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت 1961 میں کیا گیا تھا۔

امریکی سپریم کورٹ میں ججوں کی اکثریت قدامت پسند

امریکی سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کی اکثریت ہے چنانچہ تین کے مقابلے میں چھ کی اکثریت کے افرمیٹو ایکشن فیصلے نے ہارورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا میں جو امریکہ کے قدیم ترین تعلیمی ادارے ہیں، داخلوں کا یہ طریقہ روک دیا ہے۔

صدر جو بائیڈن نے فیصلے کے بارے میں وائٹ ہاؤس سے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ اس فیصلے سے سختی سے اختلاف کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں اپنا یہ وعدہ ترک نہیں کرنا چاہیے کہ وہ طلبہ تنظیموں میں متنوع پسِ منظر اور ایسے تجربے کو یقینی بنائیں گے جو پورے امریکہ کی عکاسی کرے۔

فیصلہ سناتے ہوئے امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے کہا کہ ایک طویل عرصے تک امریکہ میں جامعات نے غلط طور پر یہ طے کیے رکھا کہ کسی فرد کو اس کی بہترین صلاحیت یا تعلیم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی جلد کی رنگت کی بنیاد پر ترجیح دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری آئینی تاریخ اس بے انصافی کو برداشت نہیں کر سکتی۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اپنے ردِ عمل میں یہ بھی کہا کہ امریکی یونیورسٹیوں میں افرمیٹو ایکشن پروگرام کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو طلبہ تعلیمی معیار پر پورے نہیں اترتے۔ انہیں نسل کی بنیاد پر معیار پر پورا اترنے والے طلبہ پر ترجیح دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے کالج نسلی تنوع سے مضبوط ہوتے ہیں چناں چہ سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے کو حرفِ آخر قرار نہیں دیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا امریکہ ایک نظریہ ہے، امید اورامکانات کا۔ ہمیں آگے بڑھنے کے نئے راستے کی ضرورت ہے کیوں کہ امریکہ میں امتیاز اب بھی موجود ہے۔

یہ رپورٹ خبر رساں ادارے ’ ایسو سی ایٹڈ پریس‘ کی معلومات پر مبنی ہے۔

انتظامیہ نے کہا ہے کہ قرض کی معافی کے لیے 26 ملین لوگوں نے درخواست دی تھی اور 43 ملین لوگ درخواست دینے کے اہل ہوتے ۔اس معافی کے لیے حکومت کو 30 سال کے عرصے میں 400 ارب ڈالر درکارہوتے ۔