سپریم کورٹ کا کراچی میں نئی انتخابی حلقہ بندی کا حکم

سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ شہر میں نئے انتخابی حلقے اس طرح تشکیل دیے جائیں جن میں کسی ایک سیاسی جماعت یا گروہ کی اجارہ داری قائم نہ ہوسکے۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو کراچی میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے تین روز میں لائحہ عمل طے کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ شہر میں نئے انتخابی حلقے اس طرح تشکیل دیے جائیں جن میں کسی ایک سیاسی جماعت یا گروہ کی اجارہ داری قائم نہ ہوسکے۔

عدالت نے صوبائی محکمہ ریونیو کی کارکردگی پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے صوبہ سندھ میں زمینوں کے مالکانہ حقوق کی منتقلی پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔

عدالتِ عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے یہ احکامات بدھ کو کراچی رجسٹری میں 'کراچی بدامنی از خود نوٹس کیس' کے فیصلے پر عمل درآمد کے جائزے کے لیے ہونے والی سماعت کے دوران میں دیے۔

جج جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم بینچ میں دیگر ارکان میں جسٹس خلجی عارف حسین،جسٹس سرمد جلال عثمانی،جسٹس امیرہانی مسلم اور جسٹس اطہرسعید شامل ہیں۔

بدھ کو سماعت کے موقع پر سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کیلئے حکومت سندھ سے متعلقہ معلومات طلب کی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا اصولی فیصلہ ہے کہ پورے ملک میں نئی مردم شماری کی بنیاد پر ازسرنو حلقہ بندیاں کی جائیں گی تاہم سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی میں یہ کام ترجیحی بنیادوں پر ہوگا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس انورظہیرجمالی نے ریمارکس میں کہا کہ ہر10سال بعد مردم شماری کرانا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ہم چاہتے ہیں کراچی میں لسانی تقسیم ختم ہو اور مخصوص علاقوں میں کسی ایک گروپ کی بالادستی نہ ہو۔


سیکریٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں میں بعض قانونی رکاوٹیں ہیں مگر عدالت کا حکم پر عمل کیا جائے گا۔

انہوں نے عدالت کو یقین دلایا کہ شہر میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے آج ہی الیکشن کمیشن کا اجلاس منعقد کرکے بنیادی نکات تیار کرلئے جائیں گے جب کہ جمعرات کو حکومت سندھ کے نمائندوں اور جمعہ کو دیگر فریقین بالخصوص سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرنے کے بعد رپورٹ تیار کرکے عدالت میں پیش کردی جائے گی۔

سپریم کورٹ نے سیکریٹری الیکشن کمیشن کی استدعا پر انہیں حلقہ بندیوں کے بارے میں متعلقہ حکام سے مشاورت کے بعد لائحہ عمل تیار کرکے رپورٹ پیش کرنے کے لیے تین دن کی مہلت دے دی۔


رینجرز کی رپورٹ مسترد

عدالتِ عظمیٰ نے شہر میں امن و امان کے قیام سے متعلق رینجرز کی کارکردگی رپورٹ پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پولیس اور رینجرز کے درمیان تعاون بہتر بنانے کی ہدایت کی۔

بینچ کے رکن جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دئیے کہ شہر میں راکٹ لانچر موجود ہیں، بم دھماکے ہورہے ہیں مگر رینجرز منشیات فروشوں کی گرفتاری پر اکتفا کر رہی ہے۔

عدالت کے استفسار پر آئی جی سندھ نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر رینجرز اور پولیس کے مابین اشتراک عمل کا فارمولا تیار کرلیا گیا ہے۔


سندھ کے پراسیکیوٹرجنرل نے عدالت کو بتایا کہ پیرول پر رہا کئے گئے 25ملزمان کے پیرول کے احکامات منسوخ کرنے کیلئے ایک دو دن میں سمری پر دستخط ہوجائیں گے۔

عدالت کے استفسار پر ڈی آئی جی ٹریفک خرم گلزار نے بتایا کہ 'اے ایف آر' نمبر اور فینسی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔

اراضی کی منتقلی پر پابندی

عدالت نے سندھ میں سرکاری اراضی کی منتقلی اور مالکانہ حقوق دینے پر پابندی عائد کرتے ہوئے حکم دیا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں مختلف اشخاص کے نام پر منتقل کی گئی اراضی کا مکمل ریکارڈ پیش کیا جائے اور جب تک صوبے کا ریونیوریکارڈ ازسر نومرتب نہ کرلیا جائے کوئی سرکاری اراضی کسی کے نام منتقل نہ کی جائے۔

جسٹس انور ظہیرجمالی نے ریمارکس میں کہا کہ غریبوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی اراضی پر قبضہ ہوجاتا ہے اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جعلی اندراج کے ذریعے من پسند افراد کو اراضی منتقل کردی جاتی ہے۔

جسٹس امیرہانی مسلم نے آبزرویشن میں کہا کہ ریاست کی زمین کسی کو ہضم نہیں کرنے دیں گے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ ریونیو کا مکمل ریکارڈ ازسر نو مرتب کیا جائے۔ بعد ازاں بینچ نے سماعت 30 نومبر تک ملتوی کردی۔