|
نئی دہلی _ بھارت کے شہر کلکتہ میں خاتون ٹرینی ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ایسے میں سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت کی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ معاملے کی سماعت کی ہے جب کہ ملک میں خواتین اور ڈاکٹروں کی سیکیورٹی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کلکتہ کے آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ اسپتال میں ایک جونیئر خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے کا سپریم کورٹ نے تین دن قبل ازخود نوٹس لیا تھا۔ اس سے پہلے اس معاملے کی سماعت کلکتہ ہائی کورٹ میں ہو رہی تھی۔
نئی دہلی سے وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے اس معاملے پر سخت تشویش اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زمینی حقیقت بدلنے کے لیے ایک اور ریپ کا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے ڈیوٹی کے دوران ڈاکٹروں کے تحفظ کے سلسلے میں طریقۂ کار طے کرنے کے لیے نو رکنی ٹاسک فورس تشکیل دے دی ہے۔
عدالت نے اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے سینٹرل بیورو انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کو ہدایت کی ہے کہ وہ 22 اگست تک رپورٹ جمع کرائے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ریمارکس دیے کہ طبی پیشے سے وابستہ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا آسان ہے۔ تعصب کی وجہ سے خاتون ڈاکٹرز زیادہ ہدف بنتی ہیں۔ ایسے میں جب کہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس پیشے میں آرہی ہیں، ایک اور ریپ کا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کام کے لیے جانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیوں کہ وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ہم خواتین کو برابری کے حق سے محروم کر رہے ہیں۔
انہوں نے متاثرہ کے نام اور کیس سے متعلق تصاویر کے میڈیا میں وائرل ہونے پر بھی ناراضی ظاہر کی۔
اس واقعہ کے خلاف مغربی بنگال سمیت پورے ملک میں شدید احتجاج ہو رہا ہے اور ڈاکٹر ہڑتال پر ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں طبی خدمات متاثر ہیں۔
سپریم کورٹ نے اتوار کو سو موٹو کارروائی کرتے ہوئے اس معاملے میں مداخلت کی اور اس پر منگل کو سماعت کی۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران اسپتال انتظامیہ اور پولیس کارروائی کے سلسلے میں متعدد سخت سوالات کیے۔
بینچ نے تاخیر سے ایف آئی آر درج کرنے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ لاش کو آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے دیے جانے کے تین گھنٹے بعد کیوں ایف آئی آر درج کی گئی۔
بینچ کا کہنا تھا کہ میڈیکل کالج کے پرنسپل کیا کر رہے تھے۔ ایف آئی آر کیوں نہیں درج کی گئی۔ والدین کو لاش بہت تاخیر سے کیوں دی گئی۔ پولیس کیا کر رہی تھی؟ اسپتال میں ایک سنگین جرم ہوا۔ شرپسندوں کو وہاں داخل ہونے اور ہنگامہ کرنے کی اجازت کس نے دی؟
انہوں نے مزید کہا کہ لاش کا پوسٹ مارٹم دن میں پونے دو بجے سے چار بجے کے درمیان ہوا۔ لاش آخری رسومات کے لیے ساڑھے آٹھ رات میں بجے دی گئی اور ایف آئی آر اس کے تین گھنٹے بعد درج کی گئی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ جرم کا پتا صبح ہی چل گیا تھا۔ پرنسپل نے اسے خود کشی کا کیس بنانے کی کوشش کی۔ والدین کو کئی گھنٹے تک لاش دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ ڈاکٹر کے والد کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے بتایا گیا تھا کہ ان کی لڑکی نے خودکشی کر لی ہے اور تین گھنٹے تک لاش دیکھنے کی اجازت نہیں ملی تھی۔
چیف جسٹس کے سوالوں کے جواب میں مغربی بنگال حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ اسپتال کے لوگوں نے تصاویر لی تھیں۔ غیر فطری موت کا کیس فوری طور پر شروع کر دیا گیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ کے ساتھ ایک بورڈ قائم کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے مغربی بنگال کی حکومت کو ہدایت کی کہ اس معاملے میں احتجاج کرنے والوں پر، خواہ وہ ڈاکٹر ہوں یا سول سوسائٹی کے افراد، ریاست کی طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔
پولیس نے گمراہ کن اطلاعات پھیلانے کے الزام میں کئی افراد کے خلاف کارروائی بھی کی ہے۔
عدالت نے کہا کہ بنگال حکومت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ نظم و نسق کو برقرار رکھے گی اور جائے واردات کا تحفظ کرے گی۔
عدالت کے بقول ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ریاستی حکومت ایسا کیوں نہیں کر سکتی۔
اس واقعے کے بعد آر جی کر میڈیکل کالج کے پرنسپل سندیپ گھوش نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ لیکن انہیں چند گھنٹوں کے اندر ایک دوسرے کالج کا پرنسپل بنا دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے اس پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جب ان کے رویے کی جانچ چل رہی تھی، تو انہیں دوسرے کالج کا پرنسپل کیسے نامزد کیا گیا۔
SEE ALSO: کلکتہ ریپ و قتل کیس: ڈاکٹروں کی بھارت بھر میں ہڑتال، او پی ڈیز بندکلکتہ ہائی کورٹ نے ہی خاتون ڈاکٹر کے والدین اور اہلِ خانہ کی جانب سے پولیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کے سبب ایک ہفتہ قبل تحقیقات سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کے سپرد کی تھی۔
مقتولہ کے اہلِ خانہ کا الزام ہے کہ ایک سینئر پولیس اہل کار نے ابتدا میں انہیں اطلاع دی تھی کہ ان کی بیٹی نے خودکشی کی ہے۔
واضح رہے کہ نو اگست کی رات کلکتہ کے ایک بڑے سرکاری طبی مرکز کے آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ اسپتال میں ایک 31 سالہ جونیئر خاتون ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی کی گئی جس کے بعد اسے مبینہ بد ترین تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا۔ خاتون ڈاکٹر کی نیم برہنہ لاش اسپتال کے سیمینار ہال سے ملی تھی۔
رپورٹ کے مطابق مقتولہ ڈاکٹر 36 گھنٹوں کی طویل ڈیوٹی کے بعد آرام کی غرض سے اسپتال کے خالی سیمینار روم میں گئی تھیں جہاں ان کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر کے ساتھ پہلے زیادتی کی گئی اور پھر گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا۔ رپورٹ میں مقتولہ کے جسم کے مختلف حصوں پر زخم کے نشانات بھی پائے گئے۔
پولیس نے چند گھنٹے کے اندر ہی ایک ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا جس کا نام سنجے رائے بتایا گیا ہے۔
ملزم کے حوالے سے ابتدائی تفصیلات میں بتایا گیا تھا کہ وہ محکمۂ پولیس میں کانٹریکٹ کی بنیاد پر رضا کار بھرتی ہوا تھا اور واردات کی رات اسپتال میں ڈیوٹی پر تھا۔
بھارتی تفتیشی ادارے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) ملزم کی نفسیاتی پروفائلنگ کے ساتھ ساتھ دیگر پہلوؤں کی تحقیقات کر رہی ہے۔
خاتون ڈاکٹر کی زیادتی کے بعد قتل کا معاملہ ریاست مغربی بنگال کا دارالحکومت کلکتہ میں ہوا ہے۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی وزارتِ اعلیٰ میں ترنمول کانگریس کی ریاستی حکومت قائم ہے۔ زیادتی اور قتل کا یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد خاتون وزیرِ اعلیٰ کی حکومت پر شدید دباؤ بھی ہے۔
خاتون ڈاکٹر کے قتل کے فوری بعد جب احتجاج میں شدت آئی تو آر جی کر میڈیکل کالج کے پرنسپل سندیپ گھوش نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
ممتا بنرجی کی حکومت نے سندیپ گھوش کے استعفے کے کچھ دیر کے بعد ہی انہیں ایک اور کالج کا پرنسپل مقرر کر دیا تھا۔
حکومت کے اس اقدام پر کلکتہ ہائی کورٹ نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے سندیپ گھوش سے کہا تھا کہ وہ لمبی چھٹی پر چلے جائیں۔ ورنہ ان سے استعفیٰ مانگ لیا جائے گا۔
احتجاج دوسرے ہفتے میں داخل
خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے کے خلاف ڈاکٹروں اور طبی عملے کا احتجاج دوسرے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے۔ دیگر شعبۂ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بھی احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں۔
اس واقعے کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کیا جا رہا ہے اور ڈاکٹر ہڑتال پر ہیں۔
’آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘ (ایمس) کے ڈاکٹروں نے پیر کو وزارتِ صحت کے دفتر کے باہر دھرنا دیا۔
ڈاکٹروں کی سب سے بڑی تنظیم ’انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن‘ (آئی ایم اے) بھی ہڑتال میں شامل ہے۔
اس نے صدر دروپدی مورمو اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر اپنے مطالبات رکھے ہیں جن میں اسپتالوں کی سیکیورٹی، طبی عملہ کے لیے سینٹرل پروٹیکشن ایکٹ اور اس معاملے کی مناسب تحقیقات کا مطالبہ شامل ہے۔
مغربی بنگال کے گورنر سی وی آنند بوس منگل کو دہلی آئے۔ انہوں نے صدر اور نائب صدر سے ملاقات کی اور مذکورہ کیس کی معلومات فراہم کیں۔
قبل ازیں انہوں نے آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ اسپتال کا دورہ کیا اور ڈاکٹروں سے بات کی اور انہیں انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی۔
انہوں نے کہا کہ وہ خواتین کے تحفظ کی اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔
بی جے پی نے اس معاملے پر ریاستی حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ ممتا بنرجی کی حکومت میں امن و قانون کی صورت حال بہتر نہیں ہے۔
حکمراں ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) نے بی جے پی پر الزام عائد کیا کہ وہ اس معاملے پر سیاست کر رہی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ ممتا بنرجی نے ڈاکٹر کو انصاف دلانے کے لیے جمعے کو کلکتہ میں پیدل مارچ کیا۔
بھارت میں سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی تنظیم نے پیر کو بھی سرکاری اسپتالوں کے مختلف شعبہ جات میں ہڑتال کی جب کہ کلکتہ کے آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ اسپتال کے باہر مسلسل احتجاج ہو رہا ہے۔
آر جی کر اسپتال کے باہر پیر کو بھی مظاہرے کا اہتمام کیا گیا۔ مظاہرے میں شریک ایک ڈاکٹر شریا شو کا کہنا تھا کہ ہم پر عزم ہیں کہ ہم پر خاموش رہنے کے لیے جو دباؤ ڈالا جا رہا ہے ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔
SEE ALSO: کلکتہ میں خاتون ڈاکٹر کا ریپ کے بعد قتل: سپریم کورٹ کا نوٹس، ملک گیر مظاہرےڈاکٹروں کے احتجاج میں اب ریاست میں فٹ بال کلبوں کے مداح بھی شامل ہو چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق احتجاج میں شریک کلکتہ کے موہن بگان سپر کلب کے ایک مداح ببلو مکھرجی کا کہنا تھا کہ "ہم ڈاکٹر اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ فٹ بال کلبوں کے مداح ایک دوسرے سے کھیل کی رقابت بھول کر ایک مقصد کے لیے متحد ہو گئے ہیں۔"
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔