سلطان جتوئی گزشتہ 35 سال سے کھجور کاشت کرتے آرہے ہيں۔ وہ کھجور سے چھوارے بناکر فروخت کرتے ہيں۔ پاکستان اوت بھارت کے درمیان تجارت کی بند ہونے پر ان کا کہنا ہے کہ اگر بندش طول پکڑتی ہے تو ان کے لیے خرچہ نکالنا بھی مشکل ہو جائے گا۔
چھوارے بنانے کے لیے پہلے درخت سے کھجور کو توڑا جاتا ہے۔ اس کے بعد پروسسنگ پلانٹ منتقل کیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے کھجور کو گھچے سے الگ کيا جاتا ہے۔
بعد ازاں اسے اچھی طرح سے دھويا جاتا ہے۔
کھجور کو دھونے کے بعد ايک بڑے تھال نما کڑھائی ميں ڈال کر ابالا جاتا ہے۔
چھوارے کو رنگ دار بنانے کے لیے کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے۔ کاشت کار کہتے ہیں کہ گزشتہ چند ماہ سے اس کیمیکل کی قيمت ميں بھی کافی اضافہ ہو چکا ہے۔
کھجور کو چند منٹ ابالنے کے بعد ٹوکريوں ميں ڈال کر دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔ کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ چھوارے کو تقريبا سات دن تک کڑی دھوپ ميں خشک کیا جاتا ہے۔
سکھر کی کھجور منڈی سے نہ صرف پاکستان کے مختلف حصوں بلکہ بيرون ملک بھی کھجور اور چھوارے برآمد کیے جاتے ہیں۔ بھارت بھی پاکستان سے بڑے پیمانے پر چھوارے برآمد کرتا ہے۔ ماہرين کے مطابق کھجور کی کوئی چيز ضائع نہیں ہوتی۔ اس کے تنے ديہات ميں بطور ستون، پتے بطور پنکھے اور چٹائی بنانے جبکہ گھٹلی چھاليہ بنانے کے کام آتی ہے۔
گنشام داس کی سکھرکی کھجورمنڈی ميں ایک بڑی دکان ہے۔ وہ کھجور کو زيادہ تر بھارت برآمد کرتے ہيں تاہم حاليہ حالات کے پيش نظر انکے کاروبار ميں مندی کا رجحان ہے۔ وہ سالانہ 800 سے 1000 ٹن تک چھوارے بھارت بھیجتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر تعلقات جلد معمول پر نہ آئے تو کھجور کی صنعت سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور، زميندار اور تاجر بری طرح متاثر ہوں گے۔
مائی گوھر کا تعلق ضلع گھوٹکی سے ہے۔ ان کی عمر 60 سال ہے۔ وہ گزشتہ 10 برس سے چھوارے کی چنائی کا کام کر رہی ہیں اُن کا ایک دن کا معاوضہ 200 روپے ہے۔