چھ حملہ آوروں کے ایک گروپ نے جمعرات کی صبح عمارت پر اس وقت قبضہ کرلیا تھا جب اس میں معمول کی سرگرمیاں جاری تھیں۔
واشنگٹن —
عراق میں سکیورٹی اہلکاروں نے ایک سرکاری عمارت کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا ہے جس پر خود کش حملہ آوروں کے ایک گروہ نے قبضہ کرکے کئی افراد کو یرغمال بنالیا تھا۔
حکام کے مطابق دارالحکومت بغداد کے مشرقی علاقے میں قائم وزارتِ ٹرانسپورٹ کے دفتر پر قبضہ کرنے والے تمام چھ حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا ہے جب کہ حملہ آوروں کی فائرنگ اور دھماکوں سے 12 دیگر افراد بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
حکام کے مطابق چھ حملہ آوروں کے ایک گروپ نے جمعرات کی صبح عمارت پر اس وقت قبضہ کرلیا تھا جب اس میں معمول کی سرگرمیاں جاری تھیں۔
ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کے مطابق حملہ آوروں نے عمارت میں یرغمال بنائے جانے والے چار افراد کو موقع پر ہی ہلاک کردیا تھا۔ حکام نے یہ نہیں بتایا کہ ہلاک ہونے والے باقی آٹھ افراد کب اور کیسے مارے گئے۔
تاحال کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن ماضی میں 'القاعدہ' سے منسلک یا متاثر سنی شدت پسند عراق کی شیعہ حکومت کے زیرِ استعمال سرکاری عمارتوں پر حملے کرتے رہے ہیں۔
رواں برس کے آغاز میں سنی شدت پسندوں نے شام سے منسلک عراقی صوبے الانبار کے دو شہروں پر قبضہ بھی کرلیا تھا جس کے بعد عراقی افواج نے صوبے میں سنی شدت پسندوں کے خلاف بڑی کاروائی شروع کر رکھی ہے۔
عراق پر 2003ء کے امریکی حملے اور اس وقت کے فوجی صدر صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سنی العقیدہ جنگجو عراق میں پرتشدد کاروائیاں کرتے آئے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے کھلم کھلا شہروں پر قبضہ کرکے عراقی حکومت کی حاکمیت کو چیلنج کیا ہے۔
پرتشدد کاروائیوں کے اعتبار سے گزشتہ برس عراق کے لیے بدترین ثابت ہوا تھا جب لگ بھگ آٹھ ہزار افراد فرقہ ورانہ کاروائیوں اور حملوں کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔ اس نوعیت کی کاروائیوں اور حملوں میں رواں برس اب تک ایک ہزار افراد مارے جاچکے ہیں۔
حکام کے مطابق دارالحکومت بغداد کے مشرقی علاقے میں قائم وزارتِ ٹرانسپورٹ کے دفتر پر قبضہ کرنے والے تمام چھ حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا ہے جب کہ حملہ آوروں کی فائرنگ اور دھماکوں سے 12 دیگر افراد بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
حکام کے مطابق چھ حملہ آوروں کے ایک گروپ نے جمعرات کی صبح عمارت پر اس وقت قبضہ کرلیا تھا جب اس میں معمول کی سرگرمیاں جاری تھیں۔
ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کے مطابق حملہ آوروں نے عمارت میں یرغمال بنائے جانے والے چار افراد کو موقع پر ہی ہلاک کردیا تھا۔ حکام نے یہ نہیں بتایا کہ ہلاک ہونے والے باقی آٹھ افراد کب اور کیسے مارے گئے۔
تاحال کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن ماضی میں 'القاعدہ' سے منسلک یا متاثر سنی شدت پسند عراق کی شیعہ حکومت کے زیرِ استعمال سرکاری عمارتوں پر حملے کرتے رہے ہیں۔
رواں برس کے آغاز میں سنی شدت پسندوں نے شام سے منسلک عراقی صوبے الانبار کے دو شہروں پر قبضہ بھی کرلیا تھا جس کے بعد عراقی افواج نے صوبے میں سنی شدت پسندوں کے خلاف بڑی کاروائی شروع کر رکھی ہے۔
عراق پر 2003ء کے امریکی حملے اور اس وقت کے فوجی صدر صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سنی العقیدہ جنگجو عراق میں پرتشدد کاروائیاں کرتے آئے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے کھلم کھلا شہروں پر قبضہ کرکے عراقی حکومت کی حاکمیت کو چیلنج کیا ہے۔
پرتشدد کاروائیوں کے اعتبار سے گزشتہ برس عراق کے لیے بدترین ثابت ہوا تھا جب لگ بھگ آٹھ ہزار افراد فرقہ ورانہ کاروائیوں اور حملوں کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔ اس نوعیت کی کاروائیوں اور حملوں میں رواں برس اب تک ایک ہزار افراد مارے جاچکے ہیں۔