سعودی عرب کے مشرقی علاقے میں شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد پر مبینہ خود کش حملے کے نتیجے میں کم از کم 21 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم 'داعش' نے قبول کرلی ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں سرگرم تنظیم کی مملکت کی حدود میں پہلی بڑی مبینہ کارروائی ہے۔
داعش نے آن لائن جاری کیے جانے والے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ حملہ تنظیم کے ایک خود کش بمبار ابو عمار النجدی نے کیا۔
سعودی وزیرِ صحت نے سرکاری ٹی وی کو بتایا ہے کہ حملے میں 90 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جنہیں قریبی اسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے۔
سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق خود کش حملہ مشرقی ساحلی صوبے القطیف کے ایک گاؤں کی مسجد میں نمازِ جمعہ کے بعد ہوا۔ اطلاعات کے مطابق حملے کے وقت 'امام علی' نامی مسجد میں ڈیڑھ سو سے زائد نمازی موجود تھے۔
ایک عینی شاہد نے بذریعہ ٹیلی فون خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ وہ نماز کی پہلی ہی رکعت میں تھے جب دھماکہ ہوا۔
سعودی عرب کی وزارتِ داخلہ نے حملے کو دہشت گرد کارروائی قرار دیتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ خود کش حملہ آور نے بارودی مواد اپنے کپڑوں کے نیچے کمر سے باندھ رکھا تھا جس میں اس نے نماز کے دوران دھماکہ کیا۔
وزارت کے ترجمان نےکہا ہے کہ سعودی سکیورٹی فورسز اس دہشت گرد حملے کے ذمہ داران کو ہر صورت کیفرِ کردار تک پہنچائیں گے۔
گزشتہ سات ماہ میں مملکت کے شیعہ مسلمانوں پر یہ دوسرا حملہ ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال نومبر میں نامعلوم مسلح افراد نے اہلِ تشیع کی ایک مذہبی تقریب میں فائرنگ کردی تھی جس میں آٹھ افراد مارے گئے تھے۔
سعودی عرب کے پڑوسی ملک یمن میں ایران کے حمایت یافتہ شیعہ باغیوں کی بغاوت اور سعودی قیادت میں سنی عرب ملکوں کی جانب سے باغیوں کے خلاف لگ بھگ دو ماہ سے جاری فضائی حملوں کے نتیجے میں پورے مشرقِ وسطیٰ، خصوصاً خلیجی عرب ملکوں میں شیعہ سنی کشیدگی ان دنوں عروج پر ہے۔