افغان خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کے دفتر پر حملہ، ہلاکتیں 20 ہوگئیں

افغانستان میں حالیہ دنوں میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

افغانستان کی وزارتِ داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ اتوار کو کابل میں ہونے والے خود کش کار بم حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 20 ہوگئی ہے جب کہ 50 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

سرکاری اہلکاروں اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ بھاری اسلحے سے لیس کئی حملہ آوروں نے افغان خفیہ ایجنسی (این ڈ ی ایس) کے سابق سربراہ امراللہ صالح کی سیاسی تحریک ’افغانستان گرین ٹرینڈ‘ (اے جی ٹی) کے دفتر پر حملہ کیا۔

رپورٹس کے مطابق جس وقت دفتر کو نشانہ بنایا گیا اس وقت امر اللہ صالح عمارت میں ہی موجود تھے۔ فائرنگ کے دوران ان کے معمولی زخمی ہونے کی بھی اطلاعات سامنے آئیں البتہ حکام کا کہنا ہے کہ صالح اس حملے میں محفوظ رہے ہیں اور انہیں حملے کے فوری بعد عمارت سے محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔

امر اللہ صالح افغانستان کے آئندہ صدارتی انتخاب میں موجودہ صدر اشرف غنی کے ساتھ نائب صدر کے منصب کے امیدوار ہیں۔

امراللہ صالح جن کے سیاسی دفتر پر حملہ کیا گیا۔(فائل فوٹو)

افغانستان کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی کا کہنا ہے کہ خود کش حملے میں 20 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے جب کہ 50 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

نصرت رحیمی کے مطابق سکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان لڑائی کئی گھنٹے جاری رہی۔

یہ حملہ صدر اشرف غنی اور امراللہ صالح کی کابل میں ایک انتخابی ریلی میں شرکت کے چند گھنٹے بعد کیا گیا۔ افغانستان میں ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے سلسلے میں انتخابی مہم کا اتوار کو ہی باقاعدہ آغاز ہوا تھا۔

صدر اشرف غنی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ امراللہ صالح اس حملے میں محفوظ رہے ہیں۔

اس حملے میں سب سے پہلے ایک گاڑی میں نصب دھماکہ خیز مواد کو بموں سے اُڑایا گیا جس کی آڑ میں خود کش حملہ آور دفتر میں داخل ہو گئے۔

حکام کا کہنا ہے کہ افغان کمانڈو فوراً موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے عمارت کو گھیرے میں لے کر حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کی۔

وزارتِ داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی نے بتایا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز نے 40 افراد کو عمارت سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچایا جس کے بعد کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی کارروائی میں تمام حملہ آوروں کو ہلاک کیا گیا۔