چینی کا زیادہ استعمال جلد بوڑھا کر دیتا ہے

بلڈ شوگر کا ٹیسٹ، فائل فوٹو

میٹھی چیزوں کو دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی کی کھپت بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف امریکہ میں ہر سال اوسطاً 60 پونڈ فی کس چینی استعمال ہوتی ہے، یعنی روزانہ کم از کم 17 چمچے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق، چینی کا زیادہ استعمال بڑھاپے کے عمل کو تیز کر دیتا ہے۔

چینی کا جہاں ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ فوری طور پر جسم کو توانائی مہیا کرتی ہے اور دماغ زیادہ فعال ہو جاتا ہے۔ وہاں اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ طویل عرصے تک چینی کا زیادہ استعمال انسان کو کئی طرح کی بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے، جس میں ذیابیطس سر فہرست ہے۔

صحت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 42 کروڑ سے زیادہ ہے۔ اگر پاکستان کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق 2018 میں 17 سے 19 فی صد پاکستانی شوگر کے مرض میں مبتلا تھے جن کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ تھی۔

ذیابیطس دو طرح کا ہوتا ہے۔ ٹائپ ون اور ٹائب ٹو۔ پہلی قسم ایسے مریضوں کی ہے جن میں جسم انسولین پیدا نہیں کرتا۔ اور انہیں اپنے جسم میں شوگر کی سطح معمول پر رکھنے کے لیے بیرونی انسولین پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہ مرض عموماً بچوں اور نوعمر افراد کو لاحق ہوتا ہے۔ تاہم، یہ عمر کے کسی بھی حصے میں لگ سکتا ہے۔

ٹائپ ٹو کا ذیابیطس بہت عام ہے، جس میں عام طور پر بالغ افراد مبتلا ہوتے ہیں۔ انسانی جسم میں چینی کی سطح کو ایک خاص حد تک رکھنے کے لیے ایک خودکار نظام موجود ہے، جس کے تحت ہمارے جسم کے اندر قدرتی طور پر انسولین پیدا ہوتی ہے جو خون میں چینی کی سطح پر کنٹرول رکھتی ہے۔ اس نظام میں خلل پیدا ہونے سے جسم میں شوگر کا لیول بڑھنے لگتا ہے، جس سے اعضائے رئیسہ کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس مرض کو ٹائپ ٹو کہا جاتا ہے۔ ابتدائی سطح پر اپنی خوراک پر نظر رکھنے اور زندگی کے معمولات تبدیل کرنے سے اسے روکا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر مرض بڑھ جائے تو پھر دواؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔

حال ہی میں امریکہ میں سوسائٹی فار نیوروسائنس کی سالانہ کانفرنس میں پیش کی جانے والی ایک ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ چینی دماغ کے مرکزی حصے کو اسی طرح فعال کر دیتی ہے جیسا کہ کوکین اور ہیروئن۔ اگر چینی کا استعمال مسلسل جاری رکھا جائے تو دماغ کو ایک طرح کا نشہ لگ جاتا ہے اور اسے چینی کی طلب ہونے لگتی ہے۔

ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ چینی کے استعمال میں احتیاط کرتے ہیں، وہ بھی انجانے میں چینی کی زیادہ مقدار کھا رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ بازار سے ملنے والی کھانے پینے کی زیادہ تر اشیا میں تھوڑی بہت چینی موجود ہوتی ہے، چاہے اس کا ذائقہ کچھ بھی ہو۔ مثال کے طور پر کیچ اپ میں چینی ہوتی ہے۔ سلاد کے لیے استعمال کیے جانے والی ڈریسنگ میں چینی ہوتی ہے۔ پھلوں کے جوس میں چینی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ ڈبل روٹی، بند اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کو ذائقے دار بنانے کے لیے ان میں بھی چینی ڈالی جاتی ہے۔ بازار کی چیزوں کے ساتھ چینی سے بچنا محال ہے۔

سن 2016 میں امریکن میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ چینی کا زیادہ استعمال موٹاپے اور دل کی بیماریوں کا ایک بڑا سبب ہے۔ تحقیق کے مطابق، کیمیکلز سے صاف کردہ چینی، عام شکر یا گڑ کی نسبت زیادہ نقصان دہ ہے۔

چینی انسانی صحت کے لیے کتنی نقصان دہ ہے، یہ اندازہ اس چیز سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1960 میں اس بارے میں ہاروڈ یونیورسٹی کی ایک جامع تحقیق کے بعد سے اب تک اس موضوع پر 8000 سے زیادہ ریسرچ پیپر شائع ہو چکے ہیں۔

امریکن میڈیکل جرنل کے مطابق، چینی کے زیادہ استعمال سے ہمارا اندرونی نظام متاثر ہوتا ہے اور اس میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر طویل عرصے تک چینی کا زیادہ استعمال جاری رکھا جائے تو اس سے ہمارے جسم پر عمر بڑھنے کے اثرات کا عمل تیز ہو جاتا ہے اور انسان اپنی عمر سے بڑا دکھائی دینے لگتا ہے۔ چینی کے زیادہ استعمال سے ہماری جلد کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور اس پر جراثیم آسانی سے حملہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی پیچیدہ امراض بھی ڈیرہ جما لیتے ہیں۔

سوسائٹی فار نیوروسائنس کی سالانہ کانفرنس میں پیش کی جانے والی ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ آپ چینی کے مضر اثرات سے بچ سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ آپ اسے ایک چیلنج کے طور پر قبول کریں اور اپنی خوراک میں سے اعلیٰ معیار کی سفید چینی نکال دیں۔

اگر آپ صرف پانچ دن تک سفید چینی استعمال نہ کریں تو آپ اپنے اندر خوشگوار تبدیلی محسوس کریں گے۔ اور یہ سلسلہ جاری رکھنے سے آپ کی صحت پر طویل مدتی خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔

ریسرچ میں سادہ خوراک پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سبزیاں اور اناج کو بہت زیادہ پکانے سے گریز کیا جائے۔ زیادہ آنچ پر تلنے سے ان کے صحت بخش اجزا ضائع ہو جاتے ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں میں بڑی مقدار میں وٹامن اور معدنیات ہوتی ہیں جو ہمارے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی اور ہمیں بیماریوں سے بچاتی ہیں۔ مالٹے، کینو، ادرک، لہسن، ہلدی، بروکلی اور بادام وغیرہ میں ایسے اجزا ہوتے ہیں جو جراثیم کے حملے میں ڈھال کا کام دیتے ہیں۔

سفید چینی سے پرہیز، میٹھے کا کم استعمال، سادہ خوراک اور سادہ طرز زندگی اختیار کرنے سے آپ نہ صرف خود کو چست و توانا محسوس کریں گے بلکہ بیماریوں سے محفوظ طویل عمر کی توقع بھی کر سکتے ہیں۔