کلمہ گو مسلمان کو قتل کرنا حرام ہے: صوفی محمد

فائل

کالعدم ’تحریک نفاذ شریعت محمدی‘ کے حال ہی میں رہا ہونے والے سربراہ، صوفی محمد نے کہا ہے کہ خواتین اور بچوں کو مارنا حرام ہے، خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ آرمی پبلک اسکول میں بچوں کو شہید کرنے والے کافر سے بھی بدتر ہیں۔

اُنھوں نے کہا ہے کہ پاکستان فوج کے خلاف لڑنا حرام ہے، اگر پاک فوج نہ ہوتی تو ملک کب کا تقسیم ہو چکا ہوتا۔

نجی ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے صوفی محمد کا کہنا تھا کہ کلمہ گو مسلمان کو قتل کرنا حرام اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانا خلاف شریعت ہے۔

صوفی محمد نے اپنے داماد اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے کہا کہ ملا فضل اللہ نے طالبان سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ شامل ہوگیا، میں نے وصیت نامہ لکھوایا کہ یہ لوگ خوارج سے بھی بدتر ہیں۔

بقول اُن کے، ’’فضل اللہ نے غیر مسلموں سے بھی زیادہ اسلام کو نقصان پہنچایا۔ میرے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی فضل اللہ نے کی کیونکہ فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں نے میری تحریک ختم کی، فضل اللہ کی سزا صرف اور صرف موت ہے‘‘۔

صوفی محمد نے کہا کہ پاک فوج کے ساتھ جنگ کرنا ’’حرام ہے۔ اگر فوج نہ ہوتی تو پاکستان کب کا تقسیم ہوچکا ہوتا۔ پاک فوج کے جوان ہمارے لیے مجاہدین ہیں اور فوج کی بدولت ملک میں امن قائم ہوا‘‘۔

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی پر حملے کی مخالفت کرتے ہوئے صوفی محمد کا کہنا تھا کہ ملالہ پر جب حملہ ہوا تو وہ اس وقت جیل میں تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ حملہ نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ میں بچیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہوں اور تعلیمی اداروں پر حملوں کو حرام سمجھتا ہوں۔ علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘۔

کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ کو پشاور ہائی کورٹ میں متنازعہ تقاریر اور پولیس پر حملوں کے خلاف مقدمات میں ضمانت دی گئی ہے۔

مولانا صوفی محمد پر تھانہ کبل اور تھانہ سیدو شریف میں دو مقدمات درج ہیں۔ 30 جولائی 2009 کو صوفی محمد پر ایف آئی آر درج ہوئی تھی جس پر 4 مارچ 2010 کو گرفتار کیا گیا تھا۔صوفی محمد نے مالاکنڈ ڈویژن میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا جسے اس علاقہ میں انتہاپسندی کا نکتہ آغاز سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان میں میڈیا پر کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کے انٹرویو کی ممانعت کی جاتی ہے اور گذشتہ سال کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کا انٹرویو نشر ہونے سے قبل ہائیکورٹ میں ایک رٹ دائر کی گئی جس پر عدالت نے انٹرویو نشر ہونے سے روک دیا تھا۔

لیکن، صوفی محمد کا یہ انٹرویو نجی ٹی وی ’ایکسپریس نیوز‘ پر دکھایا گیا۔ لیکن اس انٹرویو میں صوفی محمد اپنے سخت موقف کے بالکل برعکس دکھائی دیے۔ حتیٰ کہ، سخت رجحان رکھنے والے صوفی محمد کو تصویر بنوانے کو خلاف شریعت قرار دیتے رہے۔ اس انٹرویو میں کیمرہ کے سامنے بیٹھ کر اطمینان سے انٹرویو دیتے رہے۔