سوڈان: صدر عمرالبشیر اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے

دارالحکومت خرطوم میں مظاہرین فوجی ہیڈکوارٹرز کے باہر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ وہ صدر عمر البشیر کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 9 اپریل 2019

سوڈان سے آنے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ صدر عمرالبشیر نے فوج کے دباؤ پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کے 30 سالہ اقتدار کے خلاف گزشتہ چار مہینوں سے مظاہرے جاری تھے۔

سوڈان کے فوجی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صدر عمر البشیر کو اپنے گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے جب کہ فوجی عہدے داروں اور سیاسی رہنماؤں نے جمعرات کی صبح عبوری حکومت کی تشکیل کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔

رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ حکام نے ملک کے مرکزی ایئر پورٹ کو بند کر دیا ہے اور کئی عہدے داروں کو حراست میں لے لیا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ صدر بشیر کے وفادار تھے۔

خبررساں ادارے رائیٹرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سوڈان کے فوجی دستوں نے بشیر کی اسلامک موومنٹ کے ہیڈکوارٹرز پر چھاپہ مارا ہے جہاں سے حکمران جماعت نیشنل کانگریس پارٹی کے امور چلائے جاتے ہیں۔

75 سالہ حکمران کی برطرفی کی خبر اس کے کئی گھنٹوں کے بعد سامنے آئی ہے جب سرکاری کنٹرول کے ٹی وی نے کہا تھا کہ فوج کی جانب سے ایک اہم اعلان کیا جانے والا ہے۔

گزشتہ 30 سال سے برسرِ اقتدار عمر البشیر کے خلاف سوڈان میں گزشتہ کئی ماہ سے مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اور سکیورٹی اہل کاروں کے درمیان جھڑپوں میں اب تک درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔

جمعرات کو ملک بھر میں اس وقت افواہوں کو بازار گرم ہو گیا جب سرکاری ٹی وی نے اعلان کیا کہ فوج جلد ہی ایک اہم اعلان کرے گی اور قوم اس اعلان کے لیے تیار رہے۔

سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر اس اعلان کے بعد سے قومی ترانے نشر ہونے شروع ہو گئے اور یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ فوج نے صدر البشیر کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔

سوڈان میں جاری سیاسی بحران گزشتہ ہفتے اس وقت شدید ہو گیا تھا جب ہزاروں مظاہرین نے دارالحکومت خرطوم میں وزارتِ دفاع اور مسلح افواج کے صدر دفتر کے باہر دھرنا دے دیا تھا۔

وزارت دفاع کے صدر دفتر کے باہر مظاہرین کی بڑی تعداد گزشتہ چھ روز سے موجود ہے۔

صدر کی رہائش گاہ بھی وزارتِ دفاع کے اسی چار دیواری میں واقع ہے جہاں مظاہرین کئی روز سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

احتجاجی تحریک کے رہنماؤں نے فوج سے اپیل کی تھی کہ وہ صدر البشیر کے اقتدار کے خاتمے اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے مداخلت کرے۔

کمپاؤنڈ کے باہر منگل کو صورتِ حال اس وقت کشیدہ ہو گئی تھی جب بعض انٹیلی جینس اور سیکورٹی اہل کاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی تھی جس پر فوجی اہل کار مظاہرین کو بچانے کے لیے میدان میں آ گئے تھے۔

فوجیوں اور دیگر سیکورٹی اداروں کے اہل کاروں کے درمیان جھڑپوں میں 11 افراد مارے گئے تھے جن میں وزیرِ اطلاعات کے مطابق فوج کے چھ اہل کار بھی شامل تھے۔

منگل کو ہونے والی خونریزی کے باوجود مظاہرین کی بڑی تعداد تاحال وزارتِ دفاع کے دفتر کے باہر موجود ہے۔ فوج کی جانب سے اہم اعلان کی اطلاع نشر ہونے کے بعد صدر کے خلاف احتجاجی مہم کی قیادت کرنے والی تنظیموں نے خرطوم اور گرد و نواح کے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فوراً دھرنے کے مقام پر پہنچیں۔

صدر عمر البشیر خود بھی 1989ء میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے۔ (فائل فوٹو)

صدر عمر البشیر کے خلاف حالیہ احتجاجی تحریک کا آغاز گزشتہ سال 19 دسمبر کو اس وقت ہوا تھا جب حکومت نے روٹی کی قیمت میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔

حکومت کے اس اعلان پر سوڈان کے شہری بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے تھے اور اس کے بعد سے ملک بھر میں وقفے وقفے سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لوگ صدر البشیر کے تین دہائی طویل اقتدار سے اکتائے ہوئے ہیں اور ملک کی خراب معاشی صورتِ حال اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے پر عوام میں پہلے سے ہی غصہ تھا جو مظاہروں کی صورت میں سامنے آیا۔