حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسی 50 ہلاکتوں کی مصدقہ اطلاعات ہیں جنہیں سر یا سینے میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا
انسانی حقوق کی دو تنظیموں نے سوڈان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک بھر میں مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف تشدد کو روکے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور افریقن سینٹر فار پیش اسٹڈیز نے منگل اور بدھ کو ہونے والے مظاہروں کے شرکا پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں پر تحفظات کا اظہار کیا۔
ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسی 50 ہلاکتوں کی مصدقہ اطلاعات ہیں جنہیں سر یا سینے میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا جب کہ فائرنگ اور طاقت کے بھرپور استعمال کی مزید اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی افریقہ کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر لوسی فریمین کا کہنا تھا کہ دیکھتے ہی گولی مارنے بشمول سر اور سینے پر نشانہ لگانا ’’زندہ رہنے کے حقوق کی صریحاً خلاف ورزی‘‘ ہے۔ انھوں نے ان کارروائیوں کو سکیورٹی فورسز کا ’’جبر پر مبنی تشدد‘‘ قرار دیتے ہوئے سوڈان سے اس کے فوری تدارک کا مطالبہ کیا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ پیر کو شروع ہونے والے فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 29 ہے۔
مظاہروں کا سلسلہ حکومت کی طرف سے تیل کی مصنوعات پر زر اعانت میں ختم کرنے کے خلاف شروع ہوا تھا۔ اس اقدام سے تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا جو عوام کے غم و غصے کی وجہ بنا۔ مظاہرین صدر عمر البشیر سے عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سوڈان میں سکیورٹی فورسز مظاہرین کی طرف سے مظاہروں اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد تیل کی تنصیبات اور پٹرول پمپس کی حفاظت پر معمور ہے۔ جمعرات کو دارالحکومت خرطوم اور بحر احمر کے کنارے آباد پورٹ سوڈان میں مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
2011ء میں جنوبی سوڈان کی آزادی کے بعد سے سوڈان میں تیل کا بحران شروع ہوا تھا۔ سوڈان کے خام تیل کے ذخائر کا 75 فیصد حصہ جنوبی سوڈان کے پاس ہے اور یہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک مستقل وجہ نزاع ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور افریقن سینٹر فار پیش اسٹڈیز نے منگل اور بدھ کو ہونے والے مظاہروں کے شرکا پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں پر تحفظات کا اظہار کیا۔
ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسی 50 ہلاکتوں کی مصدقہ اطلاعات ہیں جنہیں سر یا سینے میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا جب کہ فائرنگ اور طاقت کے بھرپور استعمال کی مزید اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی افریقہ کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر لوسی فریمین کا کہنا تھا کہ دیکھتے ہی گولی مارنے بشمول سر اور سینے پر نشانہ لگانا ’’زندہ رہنے کے حقوق کی صریحاً خلاف ورزی‘‘ ہے۔ انھوں نے ان کارروائیوں کو سکیورٹی فورسز کا ’’جبر پر مبنی تشدد‘‘ قرار دیتے ہوئے سوڈان سے اس کے فوری تدارک کا مطالبہ کیا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ پیر کو شروع ہونے والے فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 29 ہے۔
مظاہروں کا سلسلہ حکومت کی طرف سے تیل کی مصنوعات پر زر اعانت میں ختم کرنے کے خلاف شروع ہوا تھا۔ اس اقدام سے تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا جو عوام کے غم و غصے کی وجہ بنا۔ مظاہرین صدر عمر البشیر سے عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سوڈان میں سکیورٹی فورسز مظاہرین کی طرف سے مظاہروں اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد تیل کی تنصیبات اور پٹرول پمپس کی حفاظت پر معمور ہے۔ جمعرات کو دارالحکومت خرطوم اور بحر احمر کے کنارے آباد پورٹ سوڈان میں مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
2011ء میں جنوبی سوڈان کی آزادی کے بعد سے سوڈان میں تیل کا بحران شروع ہوا تھا۔ سوڈان کے خام تیل کے ذخائر کا 75 فیصد حصہ جنوبی سوڈان کے پاس ہے اور یہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک مستقل وجہ نزاع ہے۔