سوڈان میں متحارب جنرلوں کے سعودی عرب میں مذاکرات، خرطوم میں لڑائی جاری

فائل فوٹو

سعودی عرب کے شہر جدہ میں سوڈان کی فوج اور پیرا ملٹری فورس (آر ایس ایف) کے جنرلوں کے درمیان جنگ بندی کے لیے امریکی اور سعودی حمایت سے مذاکرات جاری ہیں لیکن دوسری جانب سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں فائرنگ اور فضائی حملوں کا سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق گزشتہ ماہ 15 اپریل کو سوڈان کی فوج اور پیرا ملٹری فورس آر ایس ایف کے درمیان ہونے والے متعدد جنگ بندی کے معاہدوں کے باوجود جھڑپیں اب بھی جاری ہیں۔

امریکہ اور سعودی عرب کی کوششوں سے سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں فریقین کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں تا کہ غربت کے شکار ملک سوڈان کے لوگوں کو انسانی امداد پہنچائی جا سکے۔

مذاکرات کا آغاز ہفتے کو ہوا ہے البتہ اس کی زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ سوڈان میں فریقین ایک دوسرے کو ان جھڑپوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل نبیل عبداللہ کا کہنا ہے کہ مذاکرات اس بات پر ہو رہے ہیں کہ انسانی امداد کے لیے جنگ بندی کو صحیح طریقے سے کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔

سوڈان میں جنگ بندی کے باوجود لڑائی تیسرے ہفتے میں داخل، کئی ممالک کے شہریوں کا انخلا

دوسری طرف آر ایس ایف کے سربراہ محمد حمدان دقلو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ تکینکی مذاکرات کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

سعودی عرب اور امریکہ نے ان مذاکرات کی حمایت کی ہے اور فریقین سے مذاکرات میں فعال کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ سوڈان میں فریقین کے درمیان جاری لڑائی میں اب تک 700 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جن میں اکثریت عام لوگوں کی ہے جب کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

سوڈان سے ایک بڑی تعداد میں مقامی افراد دوسرے ملکوں میں نقل مکانی کر چکے ہیں جب کہ دیگر ممالک کے سوڈان میں موجود تارکین وطن بھی ملک سے نکل رہے ہیں۔

آرمی کے سربراہ جنرل عبد الفتح برہان اور آر ایس ایف کے سربراہ جنرل محمد حمدان دقلو ماضی کے حلیف ہیں جنہوں نے مشترکہ طور پر 2021 میں ملک میں قائم حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جب کہ بعد ازاں اقتدار حاصل کرنے کی کوششوں میں لگ گئے۔

Your browser doesn’t support HTML5

سوڈان میں لڑائی: کونسا ملک کس فریق کی حمایت کر رہا ہے؟

سوڈان میں عسکری قوتوں کے درمیان لڑائی کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب عمر البشیر کے زوال کے چار سال بعد ایک نئی سویلین حکومت کی تشکیل کے لیے بین الاقوامی حمایت یافتہ اقتدار منتقلی کا منصوبہ شروع ہونا تھا۔

فوج اور نیم فوجی دستے دونوں ہی ایک دوسرے پر منتقلی کو ناکام بنانے کا الزام لگاتے ہیں۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے مواد شامل کیا گیا ہے۔