امریکہ میں ایک تازہ سروے میں سامنے آیا ہے کہ امریکیوں کی لگ بھگ نصف تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ملک میں نیوز میڈیا کے بڑے ادارے رپورٹنگ میں گمراہ کن اور غلط بیانی پر مشتمل انداز اپنا کر لوگوں کو مخصوص سوچ کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ سروے رپورٹ بدھ کو گیلپ اور نائٹ فاؤنڈیشن نے جاری کی ہے، جس میں میڈیا پر اعتماد حیران کن حد تک نچلی سطح پر دکھایا گیا ہے، جہاں کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ دھوکا دہی کا یہ عمل کسی مقصد کو بڑھاوا دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
سروے میں اس سوال پر کہ آیا وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ خبروں کے قومی ادارے گمراہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے؟ 50 فی صد لوگوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔
رپورٹ کے مطابق سروے میں شامل صرف 25 فی صد لوگوں نے اس بات سے اتفاق کیا۔
اسی طرح اس سروے رپورٹ میں 52 فی صد لوگوں نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ قومی خبریں دینے والے ادارے قارئین، ناظرین یا سامعین کے بہترین مفادات کی پرواہ کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سروے میں حصہ لینے والے 23 فی صد لوگ یقین رکھتے ہیں کہ صحافی عوام کے بہتر مفاد کا خیال رکھتے ہیں۔
گیلپ کی مشیر سارا فیونی نے کہا ہے کہ سروے رپورٹ خاصی حیران کن تھی۔
Did you know only 26% of Americans have a favorable opinion of the news media? New #GallupKnight study sheds light on why trust in news continues to decline. Read more: https://t.co/oHFPrT3TQx#TrustInNews #JournalismMatters pic.twitter.com/aFhEYXeHhf
— Knight Foundation (@knightfdn) February 17, 2023
ان کا مزید کہنا تھا کہ نتائج سے صحافت کی بنیادوں اور کام کے بارے میں انتہائی بد اعتمادی اور برے تاثر کا پتا چلتا ہے۔
سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جب کوئی معاملہ ایسا ہو جس میں رپورٹنگ عوام پر اثر انداز ہو سکتی ہو تو صحافی کو شفاف، درست اور چھوٹی سے چھوٹی معلومات تک پہنچنا چاہیے۔
نائٹ فاؤنڈیشن میں میڈیا اور جمہوریت کے سینئر ڈائریکٹر جان سینڈز کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں لگتا کہ امریکی یہ سوچتے ہیں کہ دراصل خبروں کے قومی ادارے اپنی رپورٹنگ کے نتیجے میں معاشرے پر اس کے مجموعی اثرات کی پرواہ کرتے ہیں۔
سروے سے پتا چلتا ہے کہ 61 فی صد امریکی سمجھتے ہیں کہ ان عوامل کے نتیجے میں باخبر رہنے کا عمل مشکل تر ہو تا جا رہا ہے جب کہ 37 فی صد کے خیال میں باخبر رہنا آسان ہو گیا ہے۔
اس رپورٹ میں شامل مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔