افغانستان: طالب علم اور پیشہ ور نوجوان شدت پسندوں کے نشانے پر

کابل

طالبان اور دیگر سرکش گروپوں کے ہاتھوں دہشت گرد حملوں میں سینکڑوں تعلیم یافتہ افغان ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ درجنوں اسکولوں پر بم حملے کیے گئے ہیں، یا نذر آتش کیا گیا ہے یا پھر اُنھیں بند کر دیا گیا ہے

افغان معاشرے اور ہمسایہ پاکستان کے پشتون علاقوں میں، شدت پسند رفتہ رفتہ معروف پیشہ ور نوجوانوں، اسکولوں اور تعلیم سے وابستہ افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اِس حربے کا مقصد غیر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد بڑھانا ہے، اور یوں، آبادی کا یہ وہ حصہ ہے جو شدت پسند گروہوں کی بھرتی میں کام آتا ہے۔

طالبان اور دیگر سرکش گروپوں کے ہاتھوں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں سینکڑوں تعلیم یافتہ افغان ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ درجنوں اسکولوں پر بم حملے کیے گئے ہیں، یا نذر آتش کیا گیا ہے یا پھر اُنھیں بند کر دیا گیا ہے۔

گذشتہ ماہ، شدت پسندوں نے کابل میں افغانستان کی امریکی یونیورسٹی پر دھاوا بولا، جس مار دھاڑ میں متعدد طالب علم اور تدریس کے شعبے سے وابستہ ارکان کو ہلاک کیا گیا۔

یونیورسٹی پر کیے گئے اِس حملے سے پہلے یونیورسٹی سے وابستہ دو پروفیسر، جن میں سے ایک امریکی جب کہ دوسرے آسٹریلیائی ہیں، اُنھیں اغوا کیا گیا جب وہ اپنے کام پر جا رہے تھے۔ معروف تعلیم دانوں پر حملے ہمسایہ پختون خواہ اور پاکستان کے شمالی بلوچستان میں بھی شدت اختیار کرگئے ہیں۔

گذشتہ ماہ کشیدگی کے شکار صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت، کوئٹہ میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں کم از کم 65 وکلا ہلاک جب کہ 80 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان اور داعش نے قبول کی تھی، جنھوں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو نشانہ بنایا، جو اپنے معاشرے میں انتہا پسندی، ناخواندگی اور غربت سے جان چھڑانے کے کام میں کمربستہ تھے۔

اس سے قبل، اِسی سال چارسدہ میں 'باچا خان یونیورسٹی' میں ہونے والے مہلک حملے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر طالب علم تھے؛ طالبان کے ایک دھڑے کی جانب سے ملک بھر کے اسکولوں کو نشانہ بنانے کا عہد سامنے آیا ہے۔

افغان معاشرے کے تانے بانے کی چیر پھاڑ

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالب علموں اور تعلیمی مراکز کو نشانہ بنانے سے شدت پسندوں کا مقصد معاشرے کے دل کو ہدف بنانا ہے، تاکہ نوجوان نسل کو تعلیم حاصل کرنے اور عالمگیر رسائی سے محروم رکھا جائے۔

لیل محب 'امریکی یونیورسٹی' کے سابق 'چیف آف اسٹاف' اور امریکہ میں افغانستان کے سفیر کی بیوی ہیں۔ 'نیویارک ٹائمز' میں تحریر کردہ ایک مضمون میں اُنھوں نے کہا ہے کہ ''یہ محض ایک ادارے پر حملہ نہیں, بلکہ افغان معاشرے کے تابے بانے پر حملہ ہے، ایک نسل، ملک کے مستقبل پر حملہ ہے''۔

مائیکل کوگلمن، 'وڈرو ولسن سینٹر' میں ایک اعلیٰ تحقیق داں ہیں۔ اُنھوں نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ ''کسی اسکول کو نشانہ بنا کر دہشت گرد ملک کے بہترین فرد، ہونہار اور مختصر طور پر یہ کہ ملک کےآئندے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ہمت پست کرنے والا، المناک حربہ اور کوئی نہیں کہ معاشرے کی نوجوان نسل ختم کی جائے، خاص طور پر افغانستان و پاکستان میں، جن میں انتہائی نوجوان آبادی کی تعداد زیادہ ہے''۔

خادم حسین کا تعلق پشاور سے ہے، جو سکیورٹی کے تجزیہ کار اور کتاب 'دِی ملیٹننٹ ڈسکورس' کے مصنف ہیں، جو پاکستان میں مذہبی شدت پسندی پر تحریر کی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلیم یافتہ پشتون معاشرے کو سوچی سمجھی 'ضرب پہنچانے' کے لیے اِس عمل پر مرحلہ وار عمل کیا جارہا ہے۔

'خلا پیدا کی جا رہی ہے'

حسین کے بقول، شدت پسند خاص طور پر تعلیمی نظام کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ وہ نوجوان طالب علموں کو تعلیم سے دور رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ دہشت گرد گروہوں کے بھرتی کے کام میں خام مال کے طور پر استعمال ہوں۔