چین کے دو انتہائی اہم شہروں میں تین ماہ بعد اسکول کھول دیے گئے ہیں جہاں بچوں کی تدریس کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق چین کی حکومت نے کرونا وائرس کے باعث عائد پابندیوں میں بتدریج نرمی کرنا شروع کر دی ہے۔
پیر سے بیجنگ اور شنگھائی میں تعلیمی ادارے کھول دیے گئے جہاں کئی ماہ بعد تدریس کا سلسلہ ایک بار پھر بحال ہوا ہے۔
شنگھائی میں ثانوی اور اعلیٰ ثانوی جماعتوں کے اُن طلبہ کو کلاس میں جانے کی اجازت دی گئی ہے جو فائنل ایئر میں ہیں۔ بیجنگ میں صرف اعلیٰ ثانوی تعلیمی اداروں کے طلبہ کو کلاسز میں جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
اسکول کھلنے کے حوالے سے شنگھائی کی 18 سالہ طالبہ ہانگ ہوان کا کہنا تھا کہ "مجھے خوشی ہے کہ میں ایک طویل عرصے کے بعد اپنی ہم جماعت ساتھیوں سے مل سکوں گی۔"
ہانگ ہوان نے مزید کہا کہ گھر میں رہ کر سارا دن کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنا ایک مشکل ترین کام تھا۔ گھر میں اس طرح کچھ زیادہ بہتر انداز سے سیکھا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
پیر کو اسکول آنے والے طلبہ کا مرکزی دروازے پر ہی جسمانی درجہ حرارت کا معائنہ کیا جا رہا ہے۔ طلبہ کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ خصوصی طور پر تیار کی گئی موبائل ایپلی کیشن پر 'سبز' (گرین) کا نشان دکھائیں گے۔
اس ایپلی کیشن کے ذریعے وبا سے متاثر ہونے کے امکانات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ چین کی وزارت تعلیم نے تعلیمی اداروں میں آنے والے تمام افراد کے لیے یہ احتیاطی تدابیر لازمی قرار دی ہیں۔
یاد رہے کہ چین میں پانچ ماہ قبل دسمبر 2019 میں کرونا وائرس کے کیسز سامنے آئے تھے۔ بعد ازاں حکومت نے سخت اقدامات کیے اور حکومتی دعوؤں کے مطابق وائرس کو کنٹرول کر لیا گیا ہے۔ جس کے بعد اب ملک میں عائد بندشوں کو بتدریج کم کیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ خدشہ اب بھی موجود ہے کہ وبا دوبارہ سے پھیل سکتی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق چین میں حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ کرونا وبا جس شہر ووہان سے شروع ہوئی تھی وہاں اب اسپتالوں میں کرونا وائرس کا کوئی مریض نہیں ہے۔
محکمۂ صحت کے حکام کے دعوے کے مطابق اتوار کو ووہان میں کرونا وائرس کا کوئی بھی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔
دنیا کے اکثر ممالک میں کرونا وائرس کے باعث مختلف پابندیاں عائد ہیں جہاں اب حکومتیں ایسا خاکہ ترتیب دے رہی ہیں جس کے تحت ان پابندیوں میں بتدریج نرمی لائے جائے تاکہ معمولاتِ زندگی کو بحال کیا جا سکے۔
تاہم عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) خبردار کر چکا ہے کہ وہ لوگ جو کرنا وائرس سے متاثر ہوئے تھے اور پھر صحت یاب ہو گئے ہیں۔ یہ اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ ان افراد پر دوبارہ وبا اثر انداز نہیں ہو سکتی۔
Your browser doesn’t support HTML5
یورپ میں وبا سے سب سے زیادہ متاثرہ چاروں ممالک اٹلی، اسپین، فرانس اور برطانیہ میں روزانہ ہونے والی ہلاکتوں کی شرح میں بھی کمی آتی جا رہی ہے۔
تاہم بندشوں میں فوری نرمی کے حوالے سے ماہرین اور سیاست دان تقسیم نظر آتے ہیں۔ جہاں ماہرین کی جانب سے معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور حفاظتی اقدامات میں توازن پر سب سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔
اٹلی اور امریکی ریاست نیویارک نے جزوی طور پر سرگرمیاں بحال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ جب کہ فرانس اور اسپین بھی رواں ہفتے پابندیوں میں نرمی کا عندیہ دے چکے ہیں۔
واضح رہے کہ دسمبر میں وبا پھیلنے کے بعد ووہان شہر میں 46 ہزار سے زائد افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جو چین میں سامنے آنے والے کیسز کے 56 فی صد کے برابر ہے۔
امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک کی جانب سے چین پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اس نے وبا کے حوالے سے اعداد و شمار کو مخفی رکھا ہے تاہم بیجنگ اس کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے۔
اسی طرح امریکہ کے ایک نشریاتی چینل نے رپورٹ نشر کی تھی کہ کرونا وائرس ووہان کی ایک لیبارٹری میں تیار کیا گیا وائرس ہے تاہم حکام نے اس کو بھی مسترد کر دیا تھا۔
دنیا بھر میں وبا سے دو لاکھ سات ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ جن میں سے 25 فی صد کے قریب اموات صرف امریکہ میں ہوئی ہیں۔ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ہلاکتیں یورپ کے ملک اٹلی میں 26 ہزار، پھر اسپین میں 23 ہزار، فرانس میں 22 ہزار جب کہ برطانیہ میں 20 ہزار سے زائد اموات ہوئی ہیں۔