دائیں اور بائیں بازو کے طلبہ، سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں کے درمیان ہمیشہ کشیدگی رہی ہے۔ لیکن، حال میں بائیں بازو کے طلبہ کے متحرک ہونے کا تمام حلقے خیرمقدم کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طلبہ تحریک سے معاشرے میں مثبت نظریاتی مکالمہ جنم لے گا جس کی موجودہ حالات میں اشد ضرورت ہے۔
فرخ سہیل گوئندی ادیب، پبلشر اور سیاسی مبصر ہیں۔ بائیں بازو کی تحریک منظم کرنے میں ان کا خاص کردار ہے۔ وائس آف امریکہ نے ان سے سوال کیا کہ سوویت یونین کے خاتمے اور چین کے معاشی ماڈل میں تبدیلی کے بعد سرخ سیاست اور سوشلزم کی کس قدر گنجائش باقی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سوشلسٹ ریاستیں ختم ہوئی ہیں، سوشلزم نظریہ ختم نہیں ہوا۔ اسی لیے آپ کبھی برازیل میں، کبھی یونان میں اور کبھی کسی اور یورپی ملک میں اس کا ابھار دیکھتے ہیں۔ سوویت یونین کے ختم ہونے سے بائیں بازو کی سیاست ختم نہیں ہوئی۔ پاکستان میں اس کے خلاف پروپیگنڈا اس لیے کیا گیا، کیونکہ یہاں سیاست کے جتنے بھی رنگ ہیں، وہ دائیں بازو کی سیاست کے ہیں۔ مذہبی رائٹ ونگ ہے، لبرل رائٹ ونگ ہے اور نام نہاد ترقی پسند رائٹ ونگ ہے جو سول سپرمیسی کا نعرہ لگاتا ہے۔ یہ سب دائیں بازو والے ہیں جو سرمایہ کاروں کی حمایت کرتے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ لال سیاست کیا ہے؟ لال سیاست مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کے حقوق کے لیے ہے۔ اس کا پرچم ان لوگوں کے ہاتھ میں نہیں جو این جی اوز میں چلے گئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے سرنڈر نہیں کیا۔ ان کی وجہ سے نظریاتی سیاست بحال ہو رہی ہے۔
لیکن، کیا لال لال کا نعرہ لگانے والے طلبہ کو لال سیاست کے نظریے اور تاریخ کا علم ہے؟ اس سوال کے جواب میں فرخ سہیل گوئندی نے کہا کہ یہ بچے مشروم کی طرح پیدا نہیں ہوئے۔ لوگوں کو ان کے بارے میں غلط فہمی ہے۔ یہ بہت منظم بچے ہیں۔ لاہور میں لیفٹ فرنٹ ڈھائی سال پہلے میں نے، فاروق طارق نے، لال خاں نے، تیمور رحمان نے مل کر بنایا تھا۔ یہ الائنس نہیں ہے، ایکٹی وٹی کا فورم ہے۔ ہمارا فیض میلہ، جالب میلہ اور موچی دروازے پر جلسہ بہت کامیاب ہوا۔ فیض میلہ وہ نہیں جو ان کے اہلخانہ کرتے ہیں۔ ہم ان سے متفق نہیں۔ ہم الگ فیض میلہ منعقد کرتے ہیں۔ ہم نے حکمت عملی بنائی تھی کہ محنت کشوں کو، کسانوں کو، بھٹہ مزدوروں کو اور طلبہ کو مرکزی دھارے میں لائیں اور ترقی پسندوں کو سرگرم کریں۔ یہ کسی این جی او کا ایونٹ نہیں ہے بلکہ تحریک ہے۔ ہم نے اس بچوں کی تربیت کی ہے اور ان کے پیچھے ڈی سینٹرلائز جمہوری تحریک ہے۔
لاہور میں کراچی سے بڑا مظاہرہ ہوا حالانکہ کراچی میں زیادہ ترقی پسند ہیں۔ لیکن وہ اس طرح منظم نہیں تھے۔ ہم بڑے بڑے ادبی میلوں میں نہیں جاتے کہ وہاں جا کر تقریریں کریں۔ ہم چھوٹے چھوٹے مواقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کتابیں چھاپ رہے ہیں اور ویڈیوز بنا رہے ہیں، کیونکہ یہ تحریکی سیاست کا لازمی جزو ہوتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ بائیں بازو کی جماعتیں بحال ہو رہی ہے۔ قومی محاذ آزادی، این ایس ایف نیا جنم لے رہی ہیں۔ ہمیں ادیبوں شاعروں اور وکلا کی حمایت بھی مل رہی ہے۔ سب سے زیادہ حمایت والدین کی طرف سے ملی ہے۔ وہ نوجوان جو تحریک انصاف کے نعروں سے متاثر ہوگئے تھے، وہ بھی پلٹ کر ہماری طرف آرہے ہیں۔
بائیں بازو کی سوچ سے اختلاف رکھنے والے کالم نگار اور سیاسی مبصر عامر ہاشم خاکوانی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں کلاسیکی بائیں بازو کا حلقہ بالکل ختم ہوچکا تھا اور ترقی پسندوں میں جمود تھا۔ اگر طلبہ دوبارہ منظم ہوئے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ مجھے ان کے نظریے سے اختلاف ہے۔ لیکن اس بات کی خوشی ہے کہ پڑھے لکھے طبقے کی جانب سے نظریاتی تحریک کی بات کی جا رہی ہے۔ ماضی میں لیفٹ کے بہت سے لوگ ٹوٹ کر سرمایہ دارانہ نظام کی طرف چلے گئے بلکہ اس کے ایجنٹ ہی بن گئے۔ ان دو نمبر سیکولر لوگوں سے ایک نمبر کا لیفٹسٹ بہتر ہے کیونکہ اس کی حقیقی ساکھ تو ہے۔ جب بات ہوگی، بحث ہوگی، ہم اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے، وہ اپنا نقطہ نظر بیان کریں گے تو ایک اچھا مکالمہ جنم لے گا، جو معاشرے میں بالکل ختم ہوچکا تھا۔
وائس آف امریکہ نے سوال کیا کہ بائیں بازو کے لوگ پاکستان میں ہمیشہ زیر عتاب کیوں رہے؟ عامر ہاشم خاکوانی نے کہا کہ پاکستان میں لیفٹ کے لوگ پہلے بھی علانیہ طور پر روس نواز تھے۔ کچھ ماؤ نواز بھی تھے۔ جب آپ کو بیرونی تعاون مل رہا ہو، باہر سے لٹریچر آرہا ہو، خاص طور پر ایسے ملک سے، جس سے آپ کے ملک کے تعلقات اچھے نہ ہوں تو شک کی نظر سے تو دیکھا جائے گا۔ راولپنڈی سازش کیس کے اثرات بھی کافی عرصہ رہے۔ لیفٹ کے کچھ لوگ بھارت کے حق میں نظر آتے تھے بلکہ لائن کراس کرلیتے تھے۔ سندھی قوم پرستوں اور بلوچ قوم پرستوں کی تحریک میں علیحدگی پسند عناصر شامل ہو جاتے ہیں۔ سرائیکی قوم پرستوں میں یہ مسئلہ نہیں رہا۔ سرائیکی قوم پرست رہے ہیں، اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہے ہیں لیکن چونکہ یہ ریاست کے خلاف نہیں گئے اس لیے ان کے خلاف کبھی اس طرح کی کارروائی نہیں ہوئی۔
ایک طرف پی ٹی ایم اور دوسری جانب بائیں بازو کے طلبہ سرگرم ہوئے ہیں۔ کیا یہ اتفاق ہے یا ان میں کوئی تعلق ہے؟ فرخ سہیل گوئندی نے کہا کہ ان میں کوئی تعلق نہیں۔ پی ٹی ایم کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن، طلبہ تحریک کے پیچھے صرف نظریہ ہے۔ عامر ہاشم خاکوانی نے ان سے اختلاف کیا۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی ایم اور طلبہ تحریک میں تعلق نظر آرہا ہے۔ انتیس نومبر کے مارچ میں اگر پی ٹی ایم کے نعرے یا 295 سی کے خلاف نعرے لگائے گئے تو ان کا طلبہ کے مسائل سے کیا تعلق بنتا ہے؟ ترقی پسند رہنماؤں کو چاہیے کہ اپنی تحریک کو اپنے ہاتھ میں رکھیں اور پی ٹی ایم والوں سے بچائیں۔