عراق میں شدت پسند تنظیم داعش کی وجہ سے متاثر ہونے والی یزیدی برادری سے متعلق ایک مطالعاتی جائزے کے بعد سامنے آنے والی دستاویز کے مطابق 2014 میں داعش کے ہاتھوں کم از کم 9900 یزیدی افراد قتل ہوئے یا انہیں اغوا کر لیا گیا۔
اس دستاویز کو نسل کشی کے مقدمے میں بطور شہادت بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔
پبلک لائبریری آف سائنس کے رسالے میں منگل کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق تقریباً 3100 یزیدی افراد کو قتل کیا جن میں سے نصف کے یا تو سر قلم کیے گئے یا انہیں زندہ جلا دیا گیا اور 6800 کو جنسی غلام بنانے کے لیے اغوا کر لیا گیا۔
اگست 2014 میں داعش کے جنگجوؤں نے شمالی عراق میں یزیدی مذہبی براداری کے مرکز سنجر پر حملہ کیا جہاں چار لاکھ یزیدی افراد آباد تھے۔
اس رپورٹ کی مرکزی تحقیق کار جان ہاپکنز یونیورسٹی اور لندن اسکول آف اکنامکس کی ماہر آبادیات ولیریا سیٹو ریلی نے کہا کہ "ابھی تک اس بارے میں صورت حال واضح نہیں تھی کہ سنجر پہاڑ پر ہونے والے حملے کے دوران داعش نے کتنے یزیدوں کو قتل کیا یا نہیں حراست میں لیا تھا۔ "
انہوں نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا کہ "ہم ایک ممکنہ مقدمہ کی سماعت کے لیے متاثر ہونے والے افراد سے متعلق ایک اچھا اندازہ فراہم کرنا چاہتے تھے۔"
اقوام متحدہ کی تحقیق کے اندازوں کے مطابق یزیدی برداری کے پانچ ہزار سے زائد افراد کو پکڑ کو قتل کر دیا گیا جب کہ تقریباً سات ہزار خواتین اور لڑکیوں کو زبردستی جنسی غلام بنا لیا گیا۔
عراقی فورسز موصل شہر کا قبضہ دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو شدت پسند گروپ داعش کا عراق میں آخری گڑھ ہے جہاں کئی یزیدی افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے۔