سندھ کی کابینہ نے جمعرات کو فیصلہ کیا کہ صوبائی دارالحکومت کراچی میں ایک اور ضلع کے اضافے کے ساتھ ان کی تعداد سات کر دی جائے۔ سندھ حکومت کے اس اقدام پر اپوزیشن جماعتیں سخت ردعمل کا اظہار کر رہی ہیں۔
سندھ کابینہ کو بتایا گیا تھا کہ کراچی کے موجودہ ضلع غربی کی آبادی اس وقت 39 لاکھ سے زیادہ ہے اور اس لحاظ سے یہ صوبے کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ کابینہ نے ضلع غربی کے کیماڑی، سائٹ، بلدیہ، ہاربر ایریا اور ماڑی پور علاقوں پر مشتمل ایک نئے ضلع 'کیماڑی' کے قیام کی منظوری دے دی۔
ضلع کیماڑی چار سب ڈویژنز پر مشتمل ہو گا جس کی مجموعی آبادی 18 لاکھ 33 ہزار سے زائد ہے۔ کابینہ نے بورڈ آف ریونیو کے حکام کو صوبے کے دیگر بڑے اضلاع کو بھی تقیسم کرنے کی تجاویز تیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
سندھ حکومت کے کیماڑی ضلع بنانے کے اقدام پر اپوزیشن جماعتوں کے رہنما سخت تنقید کر رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن جماعت تحریکِ انصاف، ایم کیو ایم اور جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں نے الزام عائد کیا ہے کہ سندھ حکومت نے ان علاقوں پر مشتمل ضلع بنا دیا جہاں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے ووٹرز کی تعداد زیادہ تھی۔ تاکہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کی جا سکے اور بلدیاتی نظام کی مدت مکمل ہونے کے بعد من پسند ایڈمنسٹریٹرز کی تقرری کی جا سکے۔
رکنِ سندھ اسمبلی اور تحریکِ انصاف کے رہنما خرم شیر زمان نے کہا کہ اس اہم فیصلے سے قبل کراچی کے منتخب نمائندوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ان کے بقول شہر کے چھ میں سے دو اضلاع، ضلع جنوبی اور ملیر میں پیپلز پارٹی کے منتخب چیئرمین ہونے کے باوجود کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا۔
خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ نئے ضلع کے قیام سے عوام کو کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
ادھر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ کراچی قیامِ پاکستان کے وقت سے ایک الگ حیثیت کا حامل تھا اور اب بھی ہے جب کہ ایم کیو ایم سے ہی تعلق رکھنے والے میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ وہ نئے ضلع کے قیام کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
وسیم اختر نے سندھ کی حکمران جماعت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتی پالیسیوں نے اس شہر کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ ان کے بقول دنیا بھر کے بڑے شہر ایک ضلع پر محیط ہوتے ہیں، لیکن یہاں تقسیم در تقسیم ہوئی ہے۔
وسیم اختر نے سوال اٹھایا کہ اگر کراچی میں مزید اضلاع بن سکتے ہیں تو سندھ میں مزید صوبے بنائے جانے پر کیوں اعتراض کیا جاتا ہے؟
دوسری جانب سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے اس تاثر کو رد کیا کہ ضلع کیماڑی کے قیام کے پیچھے حکمران جماعت کے کوئی سیاسی عزائم ہیں یا پھر اس کا مقصد بلدیاتی انتخابات میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ضلع کیماڑی کے قیام سے کراچی کو تقسیم نہیں کیا گیا بلکہ کیماڑی اب بھی کراچی کا ہی حصہ ہے۔ ان کے بقول حکومت کا یہ اقدام صرف انتظامی نوعیت کا ہے جس کا مقصد عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ سن 2005 میں ضلع حیدرآباد کو سابق وزیرِ اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے پانچ حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ اسی طرح ضلع لاڑکانہ، جیکب آباد اور دادو کو بھی دو، دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ لیکن اگر یہی کام پیپلز پارٹی کرے تو اعتراض کیا جاتا ہے۔
ترجمان سندھ حکومت نے کہا کہ عوام دشمن لوگ اس فیصلے سے خوش دکھائی نہیں دیتے۔
دوسری جانب انتظامی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ نئے اضلاع کے قیام کا تعلق صوبائی حکومت کے انتظامی فیصلوں سے ہے۔ البتہ وہ اس پر تعجب کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس اہم کام کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی یا پھر عوام سے بھی اس بارے میں تجاویز کیوں طلب نہیں کی گئیں۔
سابق بیوروکریٹ اور ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزمان کے مطابق تکنیکی طور پر حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انتظامی سہولت کے لیے اضلاع کو ضم کر دے یا انہیں تقسیم کر کے نئے اضلاع کا قیام عمل لائے تاکہ انتظامی امور کو بہتر طریقے سے چلایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا ضلع کیماڑی کے قیام کے بعد صوبائی حکومت کے اگلے اقدامات کیا ہیں جس سے یہ اندازہ ہو سکے گا کہ نیا ضلع بنانے کا مقصد کیا تھا۔
واضح رہے کہ صوبائی دارالحکومت کراچی میں سن 2013 میں آخری بار ضلع کورنگی کا اضافہ کیا گیا تھا۔ تاہم اس وقت اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی جس کی وجہ فہیم الزمان کے بقول یہ تھی کہ اس ضلع کے قیام کا ایم کیو ایم کو براہِ راست فائدہ ہوا تھا۔
البتہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے شہر میں مزید اضلاع کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ اس وقت بھی پیپلز پارٹی کی حکومت لیاری اور ضلع غربی میں دو مزید اضلاع قائم کرنا چاہتی تھی لیکن ان تجاویز کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا تھا۔
شہری امور کے ماہرین کے خیال میں کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے نئے اضلاع کے ساتھ مضبوط اور با اختیار بلدیاتی نظام کی بھی ضرورت ہے تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر ہی حل ہو سکیں۔ لیکن یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ نئے اضلاع سمیت، حلقہ بندیاں اور دیگر انتظامی تقسیم شہر میں کسی لسانی تقسیم کو ہوا دینے کا باعث نہ بنے۔