کیا تحریکِ انصاف کی 'جیل بھرو تحریک' کامیاب ہو سکے گی؟

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی بدھ سے شروع ہونے والی 'جیل بھرو تحریک' کے تحت سینئر رہنماؤں کی رضاکارانہ گرفتاریوں کے بعد اس تحریک کے مستقبل کے بارے میں مختلف آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف کسی حد تک حکومت پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوئی ہے جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اگر مرکزی رہنما اسی طرح گرفتاریاں دیتے رہے تو پی ٹی آٗئی کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔

عام انتخابات کے مطالبے کے لیے 'جیل بھرو تحریک' کیا اپنے اہداف حاصل کر سکے گی؟ حکومت کی اس تحریک سے نمٹنے کے لیے کیا حکمتِ عملی ہو گی؟ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو کس قانون کے تحت جیلوں میں رکھا گیا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو عوامی حلقوں میں موضوعِ بحث ہیں۔

پی ٹی آئی کے رہنما کون سی جیل میں ہیں؟

اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماؤں اور کارکنوں کو صوبے کی دور دراز جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

شاہ محموو قریشی کو اٹک، اعظم سواتی کو رحیم یار خان، مراد راس کو ڈیرہ غازی خان، سینیٹر ولید اقبل کو لیہ، عمر سرفراز چیمہ کو بھجر جب کہ محمد مدنی کو بہاولپور اوراسد عمر کو راجن پور جیل منتقل کیا گیا ہے۔

بدھ کو 'جیل بھرو تحریک' کے پہلے روز پٌی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری جنرل اسد عمر سمیت دیگر رہنما اپنے طور پر پولیس وین میں بیٹھ گئے تھے جنہیں پولیس نے کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا تھا۔

گرفتار ہونے والے رہنماؤں اور کارکنوں کو جب جیل لے جایا گیا تو کچھ ہی دیر بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے شکایت سامنے آئیں کہ گرفتار ہونے والے رہنماؤں کے لیے کھانا اور ادویات جیل کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کپتان کی کال پر جیل بھرو تحریک کی قیادت کرتے ہوئے وعدے کے مطابق پہلی گرفتاری دینا باعثِ فخر ہے۔


کیا پی ٹی آئی کی حکمتِ عملی کامیاب رہی؟

مبصرین سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک کی کامیابی بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ ابھی تو اِس کی شروعات ہے۔ تحریک کے دوران ہی عدالت عالیہ نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے پر از خود نوٹس لے لیا ہے۔

تجزیہ کار اور کالم نویس مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے لوگوں نے گرفتاریاں پیش کر دیں ہیں جس کے بعد حسبِ معمول کام شروع ہو گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی بھی تسلی ہو گئی ہے اور اب حکومت بھی اطمینان میں ہے کہ کوئی ہنگامہ آرائی نہیں ہوئی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی یہ تحریک سمجھ سے بالاتر ہے۔ گرفتار ہونے والے 81 افراد کو مختلف جیلوں میں بھجوایا گیا ہے۔ وہ ضمانت کی درخواست بھی نہیں دے سکتے کیوں کہ انہوں نے خود گرفتاری دی ہے۔

اُن کے بقول اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ مرکزی رہنما غیر معینہ مدت تک کے لیے جیل چلے گئے ہیں اور اگر پی ٹی آئی اپنے مرکزی رہنماؤں کی اسی طرح گرفتاری دیتی رہے گی تو اس کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔

تجزیہ کار اور کالم نویس مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ ابھی تو پی ٹی آئی کی تحریک کی ابتدا ہے، جب بھی ایسی کوئی تحریک یا دوسری تحریک چلتی ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ وہ کتنی طویل چلتی ہے یا کس حد تک اپنا اثر بنا پاتی ہے کیوں کہ اِس طرح کی تحریکوں کو مستقل بنیادوں پر چلانا مشکل ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عام طور پر جب تحریکیں کامیاب ہوتی ہیں تو اُس کی بہت بڑی وجہ حکومتِ وقت کا ردِِ عمل ہوتا ہے۔

اُن کے بقول اگر حکومت طاقت کا استعمال شروع کر دے یا گولی چلنا شروع ہو جائے تو اُس تحریک میں ویسے ہی جان پڑنا شروع ہو جاتی ہے اور وہ مزید منظم ہو جاتی ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ 1977 میں جب ایم آر ڈی کی تحریک چلی تو پہلا مہینہ تو پرامن رہا لیکن ایک ماہ بعد اپریل میں لاہور میں گولی چلی جس میں لوگ ہلاک ہوئے اور پھر یہ تحریک زور پکڑ گئی۔


مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ووٹر اور سپورٹر ہونا الگ بات ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص دو یا تین ماہ کے لیے جیل جاتا ہے تو اس کے معاشی معاملات کون دیکھے گا۔ اگر کوئی طالبِ علم ہے تو اس کی پڑھائی کا حرج ہو گا اور اگر کوئی ملازم پیشہ ہو تو اس کی نوکری برقرار رہنے کی ضمانت کون دے گا۔

مظہر عباس کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی نے یہ تحریک شروع ہونے سے قبل کوئی ہوم ورک نہیں کیا، منظم تحریکوں میں کچھ لوگ گرفتاری دیتے ہیں اور بڑے نام پیچھے رہتے ہیں تاکہ کارکنوں کو متحرک رکھا جا سکے۔

کیا بغیر کسی کیس کے کسی کو جیل میں رکھا جا سکتا ہے؟

قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ نقصِ امن کے خدشے کے پیشِ نظر حکومت کسی بھی شہری کو ایک ماہ کے لیے نظر بند کر سکتی ہے۔

معروف قانون دان حامد خان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے خود سے گرفتاریاں دی ہیں ان کے خلاف 16 ایم پی او یعنی 'مینٹینس آف پبلک آرڈر' کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔

حامد خان کہتے ہیں کہ 'جیل بھرو تحریک' کوئی جرم نہیں، لیکن حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ گرفتار ہونے والے افراد نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی۔

کیا حکومت پر دباؤ بڑھے گا؟

تجزیہ کار مظہر عباس کی رائے میں اِس تحریک کا حکومت پر دباؤ تو ہے اِسی لیے حکومت کچھ اقدامات کر رہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یوں لگتا ہے کہ عدلیہ اگر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیتی ہےتو اُس لحاظ سے پی ٹی آئی کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ تحریک پی ٹی آئی کے لیے مستقل بنیادوں پر چلانا مشکل ہو گا۔

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے مرکزی مطالبے انتخابات پر عدالتِ عظمٰی نے ازخود نوٹس لے لیا ہے جہاں سے جو نتیجہ نکلے گا اُس کے بعد ہی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو سکے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر اِسی طرح گرفتاریاں ہوتی رہی تو حکومت پر دباؤ کم ہو گا اور تحریکِ انصاف کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔

مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ جب حکومت نے احتجاج کی جگہ پر دفعہ 144 نافذ کر رکھی تھی تو حکومت کو گرفتاری کا بہانہ مل گیا ہے جس کی خلاف ورزی پر مقدمہ قائم ہو سکتا ہے۔


گرفتار ہونے والوں کو جیل میں کہاں رکھا جائے گا؟

حامد خان کہتے ہیں کہ جیل قواعد کے مطابق خود سے گرفتاری دینے والے افراد کو ایسی جگہ رکھا جائے گا جہاں سنگین نوعیت کے قیدیوں کو نہ رکھا گیا ہو۔ جیل قوانین کے مطابق اِنہیں دیگر قیدیوں کی طرح کھانا پینا اور دیگر سہولتیں ملیں گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت کسی بھی قیدی پر جسمانی یا ذہنی تشدد نہیں کیا جا سکتا۔ دورانِ جیل رضاکارانہ گرفتار ہونے والے افراد سے کسی قسم کی مزدوری یا مشقتی کام نہیں لیا جا سکتا کیوں کہ اِنہیں کسی بھی جرم میں کوئی سزا نہیں ملی۔