"میں پوری رات جاگتی ہوں۔ ایک رات کسی پہر میری آنکھ لگ گئی تو میرے پاس دو بلیاں اتنی زور سے چیخیں کہ میرا دل دہل گیا"۔ عطیہ پرویز کراچی کے ایک سکول میں ہیڈ مسٹریس ہیں اور سندھ اسمبلی کے سامنے احتجاج پر بیٹھے اساتذہ میں شامل ہیں۔
عطیہ کا گھر کراچی کے علاقے سائٹ ایریا میں ہے اور جس سرکاری اسکول میں بطور ہیڈ مسٹریس ان کی تعیناتی ہوئی تھی۔ وہ بھی اسی شہر میں ہے لیکن اس کے باوجود انہیں اس احتجاج میں شرکت کرتے کئی دن اور راتیں گزر چکی ہیں۔
سندھ اسمبلی کے باہر کئی دن سے جاری اساتذہ کے دھرنے میں سندھ بھر کے سکولوں کے آئی بی اے ایچ ایم (ہیڈ ماسٹرز) اساتذہ شرکت کر رہے ہیں۔
عطیہ پرویز نے احتجاج کے دوران سڑک پر سونے اور بلیوں کے چیخنے کا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ اس رات وہ آسمان کی طرف دیکھ کر بہت روئیں کہ یہ وہ کہاں آ گئی ہیں۔ بقول ان کے "ہم ماؤں بہنوں کو کس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے"۔
انہوں نے اپنے سڑک پر سونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح یہاں پولیس کی بھاری نفری اور سادہ لباس اہلکار موجود ہیں۔ انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ وہ کہیں مرد اساتذہ کو اٹھا کر نہ لے جائیں، اس کے لیے خواتین اساتذہ کا احتجاج پر موجود ہوناضروری ہے "کہ شاید وہ لحاظ کر جائیں"۔
عطیہ دوسرے شہروں سے آئی ہوئی خواتین اساتذہ کے ساتھ کئی دن سے احتجاج میں شامل ہیں۔انہیں اسی وجہ سے اپنے گھر والوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
عطیہ کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے۔ وہ اپنے خاندان کی واحد خاتون ہیں جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد تدریس کے شعبے سے منسلک ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے روزانہ احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرنے اور رات کو بھی احتجاج پر موجود رہنے پران کے گھر والوں کے تحفظات تھے۔
لیکن ان کے بقول، جب ان کی والدہ نے دوسرے شہروں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ اور خواتین کو بھی اپنے بچوں سے دور ، کراچی کے اس احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرتے دیکھا، تو وہ بھی قائل ہو گئیں، اور کوئی اعتراض نہیں کیا۔
عطیہ کہتی ہیں کہ انہیں کچھ پریشانی بھی ہے۔ ان کے بقول، انہیں محسوس ہوتا ہے کہ احتجاج میں بیٹھے اساتذہ کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔ کچھ افراد دھرنے پر بیٹھے لوگوں کی تصاویر بناتے ہیں۔ وہ "اس خوف میں ہر وقت سب کی گنتی کرتی رہتی ہیں کہ کسی کو غائب نہ کر دیا جائے"۔
عطیہ کے مطابق جب ان کی ایک ساتھی شبانہ کو ان کے وزیرِ اعلیٰ ہاؤس جانے کے دوران حراست میں لیا گیا تھا، تو ان کا "ضبط جواب دے گیا تھا"۔
شبانہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ میری گود میں سر رکھ کر لیٹی ہوئی تھیں اور رو رہی تھیں۔ جب میں نے تسلی دی۔ تو انہوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو بلڈ کینسر ہے۔ اس وقت ان کے بیٹے کی انڈس اسپتال میں کیمو تھراپی جاری تھی۔ شبانہ کا کہنا تھا کہ ’’یہاں تو میرا کوئی گھر بھی نہیں ہے تو میں گیسٹ ہاؤس میں رکتی ہوں۔ مجھے کالز آ رہی ہیں کیوں کہ میرا بیٹا میرا انتظار کر رہا ہے۔‘‘
یہ دھرنا پہلے کراچی پریس کلب کے باہر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں ان اساتذہ نے ریڈ زون کو عبور کیا اور سندھ اسمبلی کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ ان تمام اساتذہ نے وزیرِ اعلیٰ ہاؤس جانے کی بھی کوشش کی تھی، جسے سیکیورٹی اداروں نے ناکام بنایا۔
اب ان کا ٹھکانہ سندھ اسمبلی کے باہر ہے جہاں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ ان تمام اساتذہ نے سندھ بھر کے 937 اسکولوں میں ہیڈ ماسٹرز اور ہیڈ مسٹریس کی پوسٹ کے لیے 2015 میں آئی بی اے سکھر میں امتحان دیا تھا جس کے بعد ان کو 2017 میں پوسٹنگ لیٹر ملے تھے۔
سندھ حکومت کا اس وقت کہنا تھا کہ ان تمام افراد کو دو سال بعد مستقل کر دیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
دوسری جانب وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ مقامی میڈیا کو ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ عدالت نے ان کے کنٹرکٹ پر بھرتی ہیڈ ماسٹرز کو ریگولر کرنے کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان ضروری قرار دیا ہے۔ لیکن یہ اساتذہ یہ امتحان دینے پر رضامند نہیں۔
'نوکری کی خاطر شوہر اور بیٹے کو چھوڑ کر شکارپور گئی'
شکار پور کے سرکاری اسکول میں تعینات ماروی سومرو نے ایم ایڈ اکنامکس کیا ہے۔ وہ اس احتجاج میں اپنے تین بچے گھر میں چھوڑ کر شامل ہوئی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ماروی سومرو کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس نوکری کو چار سال دیے ہیں۔ جب اس نوکری کے لیے آئی بی اے سکھر میں ٹیسٹ ہونے تھے تب وہ حاملہ تھیں اور وہ اپنے چھوٹے سے بچے کو چھوڑ کر اس ٹیسٹ کی تیاری کر رہی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیسٹ پاس ہوا تو ان کا ڈومیسائل چوںکہ شکارپور کا تھا تو نوکری بھی انہیں وہیں دی گئی۔ وہ اپنے شوہر اور بیٹے کو چھوڑ کر شکارپور چلی گئیں جہاں کرائے کا گھر لیا۔
ماروی سومرو کا کہنا تھا کہ میرے تیسرے بچے کی پیدائش اس نوکری کے ساتھ ہی ہوئی۔ آج وہ دو برس کا ہے۔ چار سال میں نے اور میرے شوہر نے قربانیاں دی ہیں۔ ان برسوں میں میرے شوہر نے میرے بچوں کو سنبھالا اور میں اسکول کے بچوں کو سنبھالتی رہی۔ اس کے بعد آج اگر حکومت یہ کہے کہ ہم آپ کو مستقل نہیں کر سکتے۔ تو کیا میں گھر پر بیٹھ جاؤں؟ کیا وہ چار سال میں بھول جاؤں؟
انہوں نے بتایا کہ جب ہمیں حراست میں لیا گیا اور تھانے میں بٹھایا گیا تو کئی خواتین اساتذہ اس بات پر رو رہی تھیں کہ اگر ہمارے سسر، شوہر، باپ یا بھائی نے ہمیں اس حال میں دیکھ لیا۔ تو کیا ہو گا؟ آپ سوچیں ہم پر کیا کیا گزر رہی ہے۔
ماروی سومرو کے مطابق ان کے اسکول میں جب وہ گئیں تووہاں صرف 200 طالبعلموں کی انرولمنٹ تھی۔ آج اس سکول میں 1200 طالب علموں کی انرولمنٹ ہو چکی ہے۔ بقول ان کے "ہم نے اپنی جانفشانی سے ان اسکولوں کے حلئے تبدیل کیے یہاں تک کہ صرف کمیونٹی ہی نہیں حکومت نے بھی ہمیں سراہا۔
’’میں آج یہاں احتجاج پر بیٹھی ہوں تو مجھے اسکول کے بچوں اور ان کے والدین کی ٹیلی فون کالز اور میسیج آ رہے ہیں کہ میڈم ماروی آپ کہاں ہیں؟ آپ کب آئیں گی؟ وہ ہمیں دعائیں دے رہے ہیں۔‘‘
'اے سی روم سے نکل کر ایسے اسکول میں آ گئی جو ایک الگ دنیا تھی'
فائزہ فاطمہ معاشیات اور تعلیم میں ماسٹرز کر چکی ہیں اور ایم فل کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بی ایڈ اور ایم ایڈ بھی کیا ہے۔ سکول کی ملازمت سے قبل وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کر رہی تھیں۔
فائزہ فاطمہ کہتی ہیں کہ انہوں نے یہ شعبہ اپنی والدہ کی وجہ سے چنا۔ کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ اگر ان جیسے لوگ اس شعبے میں آئیں گے تو تبدیلی آئے گی۔ سو انہوں نے اس راستے کا انتخاب کیا۔
فائزہ فاطمہ ابراہیم حیدری کے سرکاری اسکول میں تعینات ہوئیں جہاں ان کے بقول پہلے ہی حالات ابتر تھے۔ یہاں تک کہ اسکول میں ڈرگ مافیا تک کا اثر و رسوخ تھا۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں ایسا لگا کہ ان کی زندگی 360 ڈگری پر تبدیل ہو گئی ہے۔ وہ ایک اے سی روم سے نکل کر ایسے اسکول میں آ گئی تھیں۔ جو ایک الگ دنیا تھی۔ لیکن انہوں نے تبدیلی لانے کی ٹھانی تھی۔ سو ہمت کی اور تمام ترمشکلات کے باوجود وہ اس اسکول کی حالت بہتر بنانے میں کامیاب ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ورلڈ بینک کی ڈاکیومنٹری ان کے اسکول پر بنی۔ یہاں تک کہ پرائیویٹ اسکول سے وہاں طلبہ کے داخلے شروع ہو گئے۔ اس سرکاری اسکول میں ای لرننگ تک شروع کرائی گئی۔
فائزہ فاطمہ مزید بتاتی ہیں کہ اسکول میں جہاں پیسوں کی کمی ہوتی تھی۔ وہ اپنی تنخواہ سے اخراجات کرتیں یا کہیں سے وسائل کا انتظام کرتیں۔ لیکن آج اپنے شہر کی سڑک پر احتجاج کے لئے بیٹھی وہ سوچ رہی ہیں کہ کہیں تدریس کا شعبہ اختیار کر کے انہوں نے کوئی غلطی تو نہیں کی۔ اب تو خاندان والے بھی باتیں سنا رہے ہیں کہ اس نوکری کے لئے اپنا بہتر مستقبل کیوں چھوڑا؟
'شوہر دھمکی دے چکے کہ یا تو اب اس نوکری کو دیکھ لو یا پھر گھر'
نازیہ فہیم ایم ایس سی کیمسٹری، بی ایڈ، ایم ایڈ کر چکی ہیں اور گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول خاتون پاکستان نمبر-ٹو کی ہیڈ مسٹریس ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ ہاؤس جاتے ہوئے انہیں پولیس نے روکنے کی کوشش کی۔ اس دوران ان کے بازو پر چوٹ لگی۔ ہاتھ پر پٹی باندھے وہ بھی اس احتجاج میں شریک ہیں۔ وہ صبح اسکول جاتی ہیں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد احتجاج میں شریک ہو جاتی ہیں۔
نازیہ فہیم کا کہنا تھا کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ حکومت اساتذہ سے بات کیوں نہیں کرنا چاہتی۔
ان کے مطابق ایک اذیت اس احتجاج کی ہے تو دوسرا گھر والوں کی جانب سے ہے۔ ان کی مخالفت، اب ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کے بچے ڈر گئے ہیں کہ پولیس کا لاٹھی چارج ہو چکا ہے۔ اس کے بعد سے وہ خوف زدہ ہو گئے ہیں اور بار بار کالز کرتے رہتے ہیں۔
صالحہ اسلم، ایم ایس سی کیمسٹری اور ایم ایڈ ہیں اور سرکاری اسکول کی ہیڈ مسٹریس ہیں۔ اس نوکری سے قبل وہ ایک نجی یونیورسٹی میں کیمسٹری کی لیکچرار تھیں۔
صالحہ ریڑھ کی ہڈی کے درد میں مبتلا ہونے کے باوجود اس احتجاج میں شریک ہیں اور ان کا خیال یہاں پر موجود تمام مرد اور خواتین اساتذہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی اچھی نوکریاں چھوڑ کر اس شعبے میں اس امید سے آئے تھے کہ حکومت انہیں دو سال بعد مستقل کر دے گی۔ صالحہ کے بقول، ڈاکٹر نے ان کی ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن تجویز کیا ہے، ’’اس کے باوجود میں گھر سے لڑ جھگڑ کر یہاں اپنے حق کے لیے آتی ہوں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کے ساتھی اساتذہ پہلے اپنے اسکول جاتے ہیں۔ پھر گھر جاتے ہیں اور سب کام ختم کر کے پھر احتجاج میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک ماہ سے چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی 12 برس کی بیٹی کو بڑے ہو کر استاد بننے کا سبق دیتی تھیں، لیکن آج انہیں اپنی بیٹی کو کچھ مختلف بتانا پڑ رہا ہے۔۔مثلا یہی کہ وہ بڑے ہو کر کبھی استاد بننے کا نہ سوچے۔