نوجوان گلوکار ہ گل پاڑاں کی آواز ہرطرف گونجتی سنائی دیتی ہے اور بچوں سے لے بڑوں تک ہر ایک گل پاڑاں کی آواز کا دیوانہ ہے۔
کہتے ہیں حالات کتنے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں، ٹینلنٹ اپنا راستہ ڈھونڈ ہی لیتا ہے اور یہ مثال سچ ثابت کر دکھائی پاکستان کا سوئٹرزلینڈ کہلائی جانے والی حسین وادی سوات سے تعلق رکھنے والی خوبصورت آواز کی مالک گل پاڑاں نے۔
ایسے حالات میں جب خیبر پختونخوا میں طویل بندش کے بعد ثقافتی سرگرمیاں بحال ہوتی جارہی ہیں، نوجوان گلوکار ہ گل پاڑاں کی آواز ہرطرف گونجتی سنائی دیتی ہے اور بچوں سے لے بڑوں تک ہر ایک گل پاڑاں کی آواز کا دیوانہ ہے۔
سن 1988میں سوات میں جنم لینے والی گل پاڑاں کو گلوکاری کے میدان میں قدم رکھے ابھی ایک سال ہی ہوا ہے لیکن ان کی سریلی آواز کا جادوسر چڑھ کر بول رہا ہے۔ٹی وی پر گل پاڑاں کا گانا چل رہا ہویا ایف ایم ریڈیو پر، لوگ سب کام کاج چھوڑ کر ان کی دھنوں پر جھوم اٹھتے ہیں۔
پشتو زبان میں کئی ہٹ گانے دینے والی گل پاڑاں کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا نام دیسی برانڈ نیم‘ بن گیا ہے۔چپس سے لگا کر چیونگم تک کھانے کی کئی اشیا کا نام گل پاڑاں کے نام پر رکھ دیا گیا ہے اور لوگ اسے خوب ذوق و شوق سے خرید رہے ہیں۔
پشاور کی رہنے والی مسز غزالہ پراچہ کا وائس آف امریکا سے گفتگو میں کہنا تھا ” آج کل تو جہاں چلے جاوٴ بس گل پاڑاں کے ہی چرچے ہیں۔ بچوں کی فرمائش گل پاڑاں پوپس کی ہوتی ہے ۔ہر اچھی آواز اور خوبصورت چہرے کو کہا جاتا ہے کہ تم کیا گل پاڑاں ہو!“
خیبر پختونخوا سے نکل کر پوری دنیا میں اپنے آپ کو متعارف کرانے کے لئے گل پاڑاں نے انٹرنیٹ کا بھی بھرپور استعمال کیاہے۔ فیس بک پر ان کے فینز کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اسی لئے انہوں نے اپنی ویب سائٹ بھی بنا لی ہے جس میں ان سے متعلق ہر چیز موجود ہے۔
گل پاڑاں نے فیس بک پراپنے بارے میں جو باتیں شیئر کی ہیں ان کے مطابق وہ اب تک 84گانے گا چکی ہیں۔ ان کا سب سے فیورٹ گانا ’لال پری‘ ہے جو انہوں نے مشہور گلوکار رحیم شاہ کے ساتھ گایا تھا اور جسے سننے والوں نے بھی بہت پسند کیا تھا۔
شہر ت اور مقبولیت کو بغیر سر پرسوار کئے گل پاڑاں کسی عام سی لڑکی کی طرح پڑھائی کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آج کل وہ پشاور میں مقیم ہیں او ر اپنی کامیابی پر خوش نئی منزلوں کی تلاش میں ہیں۔ گل پاڑاں کا کہنا ہے کہ وہ گلوکاری کی فیلڈ میں بہت آگے جانا چاہتی ہیں۔
کلچر اور ثقافتی طور پر مالامال خیبر پختونخوا کے خطے میں بہت سی خوش گلوکاراوٴں اور اداکاراوٴں کو اپنے شوق اور فن سے لگاوٴ کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑی ہے لیکن بدلتی ہوئی صورتحال میں گل پاڑاں جیسے ینگ ٹیلنٹ کا سامنا آنا خوش آئند بات ہے جو اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی ثقافت کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔
ایسے حالات میں جب خیبر پختونخوا میں طویل بندش کے بعد ثقافتی سرگرمیاں بحال ہوتی جارہی ہیں، نوجوان گلوکار ہ گل پاڑاں کی آواز ہرطرف گونجتی سنائی دیتی ہے اور بچوں سے لے بڑوں تک ہر ایک گل پاڑاں کی آواز کا دیوانہ ہے۔
سن 1988میں سوات میں جنم لینے والی گل پاڑاں کو گلوکاری کے میدان میں قدم رکھے ابھی ایک سال ہی ہوا ہے لیکن ان کی سریلی آواز کا جادوسر چڑھ کر بول رہا ہے۔ٹی وی پر گل پاڑاں کا گانا چل رہا ہویا ایف ایم ریڈیو پر، لوگ سب کام کاج چھوڑ کر ان کی دھنوں پر جھوم اٹھتے ہیں۔
پشتو زبان میں کئی ہٹ گانے دینے والی گل پاڑاں کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا نام دیسی برانڈ نیم‘ بن گیا ہے۔چپس سے لگا کر چیونگم تک کھانے کی کئی اشیا کا نام گل پاڑاں کے نام پر رکھ دیا گیا ہے اور لوگ اسے خوب ذوق و شوق سے خرید رہے ہیں۔
پشاور کی رہنے والی مسز غزالہ پراچہ کا وائس آف امریکا سے گفتگو میں کہنا تھا ” آج کل تو جہاں چلے جاوٴ بس گل پاڑاں کے ہی چرچے ہیں۔ بچوں کی فرمائش گل پاڑاں پوپس کی ہوتی ہے ۔ہر اچھی آواز اور خوبصورت چہرے کو کہا جاتا ہے کہ تم کیا گل پاڑاں ہو!“
خیبر پختونخوا سے نکل کر پوری دنیا میں اپنے آپ کو متعارف کرانے کے لئے گل پاڑاں نے انٹرنیٹ کا بھی بھرپور استعمال کیاہے۔ فیس بک پر ان کے فینز کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اسی لئے انہوں نے اپنی ویب سائٹ بھی بنا لی ہے جس میں ان سے متعلق ہر چیز موجود ہے۔
گل پاڑاں نے فیس بک پراپنے بارے میں جو باتیں شیئر کی ہیں ان کے مطابق وہ اب تک 84گانے گا چکی ہیں۔ ان کا سب سے فیورٹ گانا ’لال پری‘ ہے جو انہوں نے مشہور گلوکار رحیم شاہ کے ساتھ گایا تھا اور جسے سننے والوں نے بھی بہت پسند کیا تھا۔
شہر ت اور مقبولیت کو بغیر سر پرسوار کئے گل پاڑاں کسی عام سی لڑکی کی طرح پڑھائی کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آج کل وہ پشاور میں مقیم ہیں او ر اپنی کامیابی پر خوش نئی منزلوں کی تلاش میں ہیں۔ گل پاڑاں کا کہنا ہے کہ وہ گلوکاری کی فیلڈ میں بہت آگے جانا چاہتی ہیں۔
کلچر اور ثقافتی طور پر مالامال خیبر پختونخوا کے خطے میں بہت سی خوش گلوکاراوٴں اور اداکاراوٴں کو اپنے شوق اور فن سے لگاوٴ کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑی ہے لیکن بدلتی ہوئی صورتحال میں گل پاڑاں جیسے ینگ ٹیلنٹ کا سامنا آنا خوش آئند بات ہے جو اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی ثقافت کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔