یوسف جمیل
سنیچر کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک عام ہڑتال کی وجہ سے کاروبارِ زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا۔
ہڑتال اس ہفتےکے شروع میں جنوبی ضلع کُلگام میں بھارتی فوج کی فائرنگ میں ہوئی ہلاکتوں کے خلاف کی گئی اور اس کے لئے اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے قائدین کے اتحاد نے مشترکہ مزاحمتی قیادت نے کی تھی۔
ہڑتال کی اپیل کے پیشِ نظر حفاظتی دستوں نے دارالحکومت سری نگر کے حساس علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کیں جب کہ مشترکہ مزاحمتی قیادت کے لیڈروں کو ان کے گھروں میں نظر بند کردیا گیا یا پولیس انہیں پکڑ کر لے گئی۔
ہڑتال کے دوران جس کا اثر جنوبی کشمیر میں مقابلتاً زیادہ نظر آیا سرینگر کے پرانے حصے میں نعرہ بازی کرنے والے نوجوانوں نے سڑکوں پر آکر مظاہرے کئے۔
حفاظتی دستوں نے مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال کی۔ بعد میں پتھراؤ کرنے والے ہجوموں اور حفاظتی دستوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
شام کو کشیدگی میں اُس وقت اضافہ ہوا جب فوج نے شہر کے مضافات میں واقع شالٹینگ علاقے میں فائرنگ کرکے دو شہریوں کو زخمی کردیا۔
مقامی لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ فوج نے بلا وجہ گولی چلائی۔ فوج کا کہنا ہے کہ اسے علاقے میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کے بارے میں اطلاع دی گئی تھی اور جب اس نے ایک عارضی ناکے سے گزرنے والی ایک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا تو ڈرائیور اسے نظر انداز کرتے ہوئے آگے نکل گیا ، جس پر فوج نے مجبوراً گولی چلادی۔
جنوبی کشمیر کے بعض علاقوں سے بھی مظاہروں اور ان کے دوراں تشدد کے واقعات کے پیش آنے کی اطلاعات ملی ہیں تاہم ان کی شدت نسبتاً کم تھی۔
اس دوران بھارتی فوج نے کہا ہے کہ حد بندی لائن کے سندر بنی راجوری علاقے میں پاکستانی فائرنگ میں ایک بھارتی فوجی ہلاک ہوگیا۔ بھارتی فوج کے ایک ترجمان نے الزام لگایا کہ پاکستانی فوج نے بھارت کی اگلی چوکیوں کو بلا وجہ ہلکے اور درمیانی درجے کے ہتھیاروں سے ہدف بنایا جس کا ترجمان کے بقول فوری سخت اور موزوں جواب دیاگیا۔
اس سے پہلے جمعہ کو پاکستان نے بھارتی فوج پر بلا اشتعال فائرنگ کرکے اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک 70 سالہ شہری کو ہلاک کرنے کا الزام لگایا تھا جس کے بعد اسلام آباد میں تعینات ایک اعلیٰ بھارتی سفارت کار کو دفترِخارجہ میں طلب کرکے بھارتی فوج کی اس حرکت پر احتجاج کیا گیا۔