سری لنکا کے صدر مہندا راجا پاکسا نے جمعرات کو ہونے والے انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔
ان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ وہ اپنی سرکاری رہائش گاہ چھوڑ گئے ہیں "تاکہ نئے صدر اپنی ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔"
ابتدائی نتائج میں تقریباً دس سال تک اقتدار میں رہنے والے راجا پاکسا کو اپنے سابق وزیر صحت مائتھریپالا سرییسینا کے مقابلے میں خاصے کم ووٹ ملے ہیں۔
ترجمان ویجیا آنندا ہیراتھ کا کہنا تھا کہ "صدر راجا پاکسا ٹیمپل ٹریز سے تشریف لے جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عوام کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے یہاں سے جا رہے ہیں۔"
اس سے قبل مسٹر راجاپاکسا نے حزب مخالف کے رہنما رانیل وکراماسنگھے سے ملاقات کی اور انھیں اپنی رخصت کے بارے میں آگاہ کیا۔
راجاپاکسا کے بیٹے نمل نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں لکھا ہے کہ ان کا خاندان نتائج کو تسلیم کرتا ہے۔
"آپ سب کا شکریہ جنہوں نے ان برسوں میں ہماری حمایت کی۔۔۔ہم سری لنکا کی عظیم جمہوریت اور عوام کی آواز کا احترام کرتے ہیں۔"
جمعرات کو ہونے والے انتخابات میں لوگوں کی ایک غیر معمولی تعداد نے ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنز کا رخ کیا تھا۔
اگرچہ راجا پاکسا کی حمایت میں حالیہ مہینوں میں کمی آئی ہے تاہم ان کا خیال تھا کہ ہمیشہ سے منقسم حزب اختلاف ان کے خلاف ایک معتبر امیدوار کا چناؤ کرنے میں ناکام ہو جائے گی۔
انہوں نے یہ پیش بینی نہیں کی تھی کہ سرییسینا ان کے مقابلے میں کھڑے ہوں گے، جو بطور وزیر صحت اپنے عہدے سے استعفی ٰ دے کر نومبر میں حزب مخالف کے امیدوار بن گئے۔ اس وجہ سے کئی ایک دوسرے لوگ بھی حکومت سے الگ ہوگئے تھے۔
راجاپاکسا نے جمعرات کو اپنے حلقے میں ووٹ ڈالتے وقت کہا کہ انھیں یقین ہے کہ ان کو ملک کی قیادت کرنے کا تیسری بار موقع دیا جائے گا۔
ادھر واشنگٹن میں محکمہ خارجہ نے ووٹنگ میں لوگوں کی بڑھ چڑھ کے شرکت کی اطلاعات کو ’حوصلہ بڑھانے والی بات‘ قرار دیا ہے۔
ترجمان نے، جمعرات کو روزانہ بریفنگ کے دوران ایک سوال پر بتایا کہ انتخابی مبصرین سری لنکا کے صدارتی انتخابات میں جائزے کا اہم کردار ادا کریں گے۔
پُرامن انتخابات کرانے کے حوالے سے، امریکہ نے سری لنکا کے انتخابی کمیشن، پولیس اور افواج کے کردار کو سراہا ہے۔
ساتھ ہی ترجمان نے کہا کہ "ہم حکومت سری لنکا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ووٹوں کی گنتی کے کام میں شفافیت اور اس کے قابل اعتماد ہونے، اور الیکشن میں دھاندلی یا تشدد کے واقعات کی چھان بین کو یقینی بنایا جائے۔"
جین ساکی نے کہا ہے کہ امریکہ نے صدارتی انتخابات کے جائزے کے لیے مبصر سری لنکا نہیں بھیجے تھے جب کہ دولت مشترکہ، سارک اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات سے متعلق ایشیائی نیٹ ورک نے مجموعی طور پر 84 کے لگ بھگ بین الاقوامی مبصرین روانہ کیے تھے۔